Recipes

…وحشت ہے بہت میر کو

There is evidence that the food industry designs ultra-processed foods to be highly rewarding, to maximize craveability and to make us want more and more and more

Share
Share

زمانۂ طالب علمی میں اپنے جن اساتذہ پر مجھے فخررہا ہے،ان میں ایک نام پروفیسر شمیم حنفی (1938۔2021)کا بھی ہے۔وہ استاد کے ساتھ ساتھ ممتاز ادیب،دانش ور،کالم نگاراور شاعر تھے۔اردو، ہندی اور انگریزی ادبیات اوران کے معززاور معروف معاصر ادیبوں سے ان کی واقفیت تھی،بلکہ گہرے مراسم تھے۔ان کاانداز گفتگو ایسا پرکشش اور شگفتہ تھا کہ بس سنتے رہیے۔لوگ ان کی دانش وری کے ہی معترف نہیں تھے،بلکہ اس حافظے اور علم کے بھی، جس میں کتابوں اور مصنفین کے روشن حوالے آتے تھے۔یہ تجربہ بھی بارہا ہوا کہ ان سے چند منٹ کی گفتگو ہمیں دیر تک سرشار ی وشادمانی کی کیفیت میں رکھتی۔

پروفیسر شمیم حنفی اشعار کی تعبیر و تفہیم میں شعر کے تکنیکی پہلو پر توجہ زیادہ نہیں دیتے تھے۔بعض فنی خوبیوں کی طرف کبھی کبھی اشارہ ضرور کرتے۔ اگر کبھی کسی نے سوال کیا تو مصرعے کی نثر اس طرح کرتے تھے کہ سب کچھ واضح ہوجاتا۔ایک بارناسخ کو پڑھاتے وقت کہنے لگے کہ تمام شعرا کو یکساں دلچسپی سے پڑھنا صرف اور صرف شمس الرحمن فاروقی کا کارنامہ ہے اور پھر بہت دیر تک شعری تنقید سے متعلق فاروقی صاحب کے کارناموں پر روشنی ڈالتے رہے۔ 2003میں شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گیسٹ فیکلٹی کے لیے جب مقامی سلیکشن کمیٹی کے سامنے میں پیش ہوا تو صدر شعبہ اور ڈین فیکلٹی کے علاوہ پروفیسر شمیم حنفی بھی موجود تھے۔ اس موقع پر انھوں نے خالص تکنیکی اور لسانی نوعیت کے سوالات کرکے مجھے حیرت میں ڈال دیا۔خیال آیا کہ ان سوالات کو نوکری کے اس پہلے مرحلے میں آگے کی تیاریوں کے لیے زادراہ کے طور پر اختیار کرنا چاہیے۔اساتذہ کی تربیت اور رہنمائی کے ہزار پہلو ہیں۔

پروفیسر شمیم حنفی غزل پڑھاتے وقت بالعموم متن سامنے نہیں رکھتے تھے۔بس کسی طالب علم کے مطلع پڑھنے کی دیر رہتی کہ اس کے بعد پوری غز ل ان کے حافظے میں تازہ ہوجاتی۔’پہلی بارش‘ کی بیشتر غزلیں انھیں یاد تھیں۔ناصر کاظمی،خلیل الرحمن اعظمی،ظفر اقبال،شہریار،احمد مشتاق،زیب غوری،بانی،حسن نعیم،کمار پاشی،من موہن تلخ، عمیق حنفی اور بہت سے شعرا کے نام اور کلام سے تعارف انھیں کے توسط سے ہوا۔ان کی کتاب ’غز ل کا نیا منظرنامہ‘اس وقت تک کم یاب ہوچکی تھی۔ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریری (جامعہ ملیہ اسلامیہ)میں بھی نہیں ملتی تھی،بڑی مشکل سے ریڈنگ روم کی لائبریری سے اشوکراکے اس کی عکس بندی کی گئی اور پھراس کا اجتماعی مطالعہ کیا گیا۔اس وقت تک جدید شعرا پر بہت زیادہ لکھا بھی نہیں گیا تھا اور اگر کچھ تھابھی تو اس کا حصول آج کی طرح آسان نہیں تھا۔پی ڈی ایف فائل اور اطلاعاتی ٹکنا لوجی کی دیگر سہولتیں ابھی پردہئ خفامیں تھیں۔اس وقت تک فوٹو کاپی مشین ہی الہ دین کا چراغ ہوتی تھی۔جدید شعراسے تعارف اور ان کو جاننے کا مزید موقع اس کتاب کے مطالعہ کے بعد ہی ملا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شمیم صاحب کی وجہ سے فراق گورکھ پوری اور ناصر کاظمی کو پڑھنے کے مواقع زیادہ میسر آئے اور پھر کچھ دنوں کے بعد ہی غیر شعوری طور پر یہ ہمارے ادبی ذوق کا حصہ ہوگئے۔

شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم اے اردو (2001)کے پہلے سال میں شمیم صاحب سے غزل پڑھنے کا موقع ملا۔ ان کے لیکچر ہی جدید اور جدیدیت سے وابستہ شعرا سے قربت کا ذریعہ بنے۔فراق گورکھپوری سے عمیق حنفی تک جدید شاعروں کی ایک کہکشاں انھوں نے ہمارے سامنے اس طرح روشن کررکھی تھی کہ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ تمام شعرا ہمارے ہی ملاقاتی ہیں۔کسی شاعر کے نام کے آگے صاحب لگاتے ہوئے پہلے پہل شمیم حنفی صاحب ہی کو دیکھا تھا۔فراق گورکھپوری کا نام جس احترام اور اہتمام سے وہ لیتے اور ان کے نام کے ساتھ صاحب کا لاحقہ لگاتے تھے، اس کی مثالیں کم ملیں گی۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ انھوں نے کبھی صاحب کے بغیر فراق گورکھپوری کا نام لیا ہو۔یہ محض فراق کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف نہیں تھا بلکہ اس میں ایک شاگرد کی عقیدت ومحبت بھی شامل تھی۔شمیم صاحب اپنے اساتذہ کا ذکرنہایت عزت اور احترام سے کرتے اور ان کی خوبیاں اس طرح بیان کرتے کہ اسے سن کر استاد شاگرد کی مثالی قدروں کی یاد تازہ ہوجاتی۔اس میں فراق گورکھپوری،سید احتشام حسین،پروفیسر ستیش چندر دیو اور الہ آباد یونی ورسٹی کے دیگر اساتذہ کے ساتھ ساتھ سلطان پور کے ان اساتذہ کا ذکر بھی شامل ہوتا،جن سے انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔فراق صاحب کے قصے،واقعات اور بہت کچھ وہ اس طرح سناتے کہ کچھ دنوں بعد ہم بھی شمیم حنفی کے ساتھ فراق صاحب کی محفل میں خود کو موجود پاتے تھے۔غزل کی اسی کلاس میں پہلی بار فراق گورکھ پوری کی آواز بھی ہمیں سنائی گئی۔ایک روز کلاس میں گئے تو دیکھا کہ ٹیپ ریکارڈ رکھا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ شمیم صاحب ایک کیسٹ لائے ہیں جس میں فراق گورکھ پوری کا ایک انٹرویو ہے اور ان کا کلام بھی۔اس وقت تک فراق سے متعلق شمس الرحمن فاروقی کی کوئی تحریر نظر سے نہیں گذری تھی اور نہ میں نے پروفیسرملک زادہ منظوراحمد کا وہ مضمون پڑھا تھا جو’گہ ایزد وگہ اہرمن‘کے عنوان سے ماہنامہ ’نیا دور‘لکھنؤ کے فراق نمبر میں شائع ہوا تھا۔کیسٹ کے اس دلچسپ انٹرویو کا ایک سوال یہ بھی تھا کہ آپ پہلے میر وغالب سے متاثر ہیں یا کسی اور سے؟فراق گورکھ پوری نے کسی توقف کے بغیر کہا کہ میں اپنے آپ ہی سے زیادہ متاثر ہوں، اسی لیے میرے یہاں ’میریت‘کم اور ’فراقیت‘زیادہ ہے۔ ہم لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے۔اس کے بعدفراق کو کلام پڑھتے ہوئے بھی سنوایا گیا۔بھاری بھرکم آواز اور لہجے کا اتار چڑھاؤ لطف دے گیا۔ ایم اے کے پہلے سال کا وہ دن ہمارے لیے یادگاربن گیا۔

Leave a comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اردو ادب، شاعری اور نثر – سب ایک جگہ
آپ کے ذوق کی دنیا، بس ایک کلک کی دوری پر

Get The Latest Updates

Subscribe to our newsletter to get our newest articles instantly!

Copyright 2025 . All rights reserved Huroof powered by Arkanteck.