امید سے کم چشم خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئ
خود نوشت ہی کیا بلکہ تمام اصناف ادب میں ہی خواتین کی ذرا دیر سے انٹری ہوئی۔ بلکہ ان کے حقوق کی ہی طرف دنیا تھوڑی دیر سے متوجہ ہوئی۔ یوں کہہ لیں کہ ایک زمانہ تک جوہر عورت کی کلید غیروں کے ہاتھوں میں تھی۔ آخر اس عقدہ کو خود عورت نے اپنی جدو جہد سے حل کیا۔ در اصل عورت زندگی کو زیادہ قریب سے دیکھتی، محسوس کرتی ہے اور احساس و شعور میں زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کے رنگ و بو کو دامن میں سمولیتی ہے، جب ان کو خود نوشت لکھنے کا موقع ملتا ہے، تو وہ ایک ایسی داستان بن کر سامنے آتی ہے، جس کے ورق ورق پر عورت کے حساس دل میں موجزن احساس و جذبات کی تصویریں چلتی پھرتی، سانس لیتی، کچھ اس طرح محسوس ہوتی ہیں، کہ ہمارا معاشرہ دم بخود ہوکر زندگی کی سچی حقیقتوں کا تماشہ دیکھتا ہے، حالانکہ ابھی تک اردو ادب میں خواتین کی طرف سے بہت کم خود نوشتیں سامنے آئی ہیں، لیکن ریختہ نے کچھ اچھی اور معتبر خواتین کی خود نوشتوں کی ایک منتخب فہرست ترتیب دی ہے، ریختہ پر موجود درج ذیل خودنوشتیں آپ کے مطالعہ کی منتظر ہیں۔
“بیتی کہانی” اردو تاریخ و ادب کی نہ صرف اولین نسوانی خودنوشت ہے بلکہ تاریخ پاٹودی کا ایک بنیادی ماخذ بھی ہے۔ یہ سوانح عمری اکرچہ پہلی مرتبہ 1995 میں پروفیسر معین ا لدین عقیل کے مقدمہ و حواشی کے ساتھ شائع ہوئی لیکن مصنفہ شہر بانوں بیگم نے “بیتی کہانی” کو 1885 میں تصنیف کیا تھا اور تقریبا دیڑھ سال بعد اس میں محض دیباچے کا اضافہ کرکے کتابی شکل دی۔ اس آپ بیتی کی مصنفہ شہر بانو بیگم کا تعلق ریاست باٹودی کے حکمراں خاندان سے تھا۔ وہ رئیس ریاست نواب اکبر علی خاں (1813- 1872) کی دختر تھیں۔ انہوں نے اپنی اس سرگذشت میں زندگی کے تقریباً تمام اہم واقعات کو کہیں تفصیل اور کہیں اختصار کے ساتھ بیان کر دیا ہے اور پھر اہم مقامات پر تاریخ و سنہ کے اندراج کا بھی اہتمام کیا ہے۔ اپنی سرگذشت کے ضمن میں ریاست کے قیام کے تاریخی و سیاسی پس منظر اور اپنے اجداد کے تاریخی و سوانحی حالات کو انہوں نے جو خاص اہمیت دی ہے، اس سے تاریخ سے ان کے گہرے شغف کا اظہار ہوتا ہے۔ کتاب کی زبان صاف اور سادہ ہے۔ کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان تینوں کے ماتحت متعدد عناوین ہیں۔ یہ ابواب مصنفہ کی طرف سے نہیں قائم کئے گئے ہیں، بلکہ ابواب کی تقسیم بعد میں مرتب نے کی ہے۔ البتہ مصنفہ نے جگہ جگہ موضوع کے اعتبار سے بین السطور اس طرح تحریر کیے ہیں کہ بیان کا ربط نہیں ٹوٹتا۔ اپنی زندگی کے نشیب و فراز کو انہوں نے بلا کم و کاست بیان کر دیا ہے۔ اس سے ان کی حقیقت نگاری اور راست گفتاری کا ثبوت ملتا ہے۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈییشن لاہور سے 2006 میں شائع ہوا۔
بیتی کہانی
نوٹ۔ کتابوں کو پڑھنے کے لئے کسی بھی امیج پر کللک کرنے سے باضابطہ کتاب تک رسائی ہوجائے گی۔

تزک سلطانی
بھوپال کی حکمران خاتوں سلطان جہاں بیگم برصغیر میں خواتین کی تعلیم کی علمبردار تھیں۔ وہ اعلی تعلیم یافتہ روشن خیال خاتون تھیں۔ انہوں نے ہر پلیٹ فارم پر تعلیم نسواں کو فروغ دیا۔ زیر نظر نواب سلطان بیگم کی خود نوشت ہے۔ جو تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ “تزک سلطانی” )مطبوعہ (1903 جس میں ان کی پیدائش اس وقت کے سیاسی و سماجی حالات، ان کی مسند نشینی اور ان کی شادی وغیرہ کی تفصیلات درج ہیں۔ تز ک سلطانی کا دوسرا حصہ “گوہر اقبال” )مطبوعہ (1909کے نام سے موسوم ہے۔ جس میں ان کی صدر نشینی، 1909 سے 1908 تک کے حالات۔ اور ان کی صدر نشینی کے بعد کیا مشکلات پیش آئیں۔ شوہر کا انتقال، بیٹیوں کی شادیاں وغیرہ۔ تزک سلطانی کا تیسرا حصہ “اختر اقبال” کے نام سے 1914 میں منظر عام پر آیا اس حصے میں ان کی تعلیمی سرگرمیاں، تعلیم نسواں کے فروغ کے لئے اسفار، اور اس سلسلے کی دوسری جدو جہد مذکور ہیں۔ یہ خود نوشت اس وقت کے بھوپال کی سیاسی و سماجی تاریخ کی ایک اہم دستاویز قرار پاتی ہے
Leave a comment