وہ کبھی ‘ایران کی بیٹی اور ہندوستان کی بہو’ اور کبھی “عندلیب دکن “اور کبھی”سخن شیریں” کہی جاتی تھیں۔
یہ تھیں اردو کی عاشق ، اردو ، فارسی اور انگریزی کی شاعرہ اور افسانہ نگار، نیلی آنکھیں ،گوری رنگت، کالے بالوں والی ایرانی نژاد، ملنسار ،خوش گفتار ، روشن خیال، بانو طاہرہ سعید
ان کی کہانی کچھ ان کی زبانی
چلئے طاہرہ بانو کا تعارف خود ان کی زبانی ہی کراتے ہیں
طاہرہ کے والد سعید امیر علی معصومی ایران کے مشہور رئیس تھے دولت مند ہونے کے ساتھ ان کے خاندان میں علم و ادب کا ذوق تھا۔ اسی شوق میں سید امیر علی کمسنی میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے یورپ گئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ایران واپس جانے کے بجائے ہندوستان آ گئے۔ اور پہلے اگرہ اور بعد میں لکھنؤیونیورسٹی میں انگریزی پڑھاتے رہے ۔وہ چودہ زبانیں جانتے تھے۔ ہندوستان میں ہی انھوں نے ایک ایرانی نژاد خاتون سے شادی کی۔ بانو طاہرہ نے پہلے اگرہ اور پھر لکھنو میں اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ۔لکھنو کے مشہور ازابیلا تھوبرن کالج سے بی اے کیا
ادبی میراث
“میں نے غیر منقسم شدہ ہندوستان کے تاریخی شہر آگرہ میں ایسے خاندان میں جنم لیا جو باوجود ایرانی النسل ہونے کے ہندوستان کا نہ صرف خدمت گزار ہونے کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا بلکہ ہندوستان سے محبت اور اس کی آزادی کی جدوجہد میں بھی ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ میری شادی بھی حیدرآباد کے ایک ایسے فوجی گھرانے میں ہوئی جس کے چار پانچ نوجوان جنگ عالمگیر دوم میں ہندوستان کے دفاع میں اپنی جان سے کھیل رہے تھے۔ کوئی شرق بعید (far east )کے محاذ پر تھا تو کوئی مشرق وسطیٰ میں اور انہیں میں سے ایک شخص بریگیڈیر جی۔ ایم۔ سعید (اور میرے جیون ساتھی) کے روپ میں وطن پر چینیوں کے جارحانہ حملے کے موقع پر بھی سینہ سپر تھا۔”
ایراں کبھی کیھنچے ہے پکارے ہے کبھی ہند
طاہرہ کے والد سن 1937 میں ریٹائر منٹ کے بعد واپس طہران چلے گئے۔ بانو۔طاہرہ بھی ظاہر ہے ان کے ساتھ ایران چلی گئیں ۔ایران میں صحافت کے کورس کی تکمیل کی اور ریڈیو تہران کے شعبہ اردو کی نگران و منتظم بھی رہیں اور بی بی سی کی ٹریننگ بھی حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی میں شاہ ایران نے ادبی انعام سے نوازا۔ اب اتفاق دیکھیے کہ طہران میں ان کی ملاقات ہندوستان آرمی کے میجر سعید سے ہوئ (جو بعد میں برگیڈئیر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے)۔ ان سے شادی کے بعد وہ حیدر آباد میں رہنے لگیں اور وہاں کی ادبی محفلوں ، اور سماجی سرگرمیوں میں ایک ممتاز ہستی بن گئیں۔
انھوں نے ایک جگہ لکھا تھا ” یوں تو میں نے فطرتاً انسانیت اور کل کائنات سے پیار کرنا سیکھا ہے لیکن ‘ اے سرزمین ہند مجھے تجھ سے پیار ہے’ میرا نعرہ رہا ہے۔ شعر و سخن اور افسانہ نگاری کا بچپن سے شوق ہے۔ میں اپنی خوشی کے لئے لکھتی ہوں۔ یہ میرا محبوب مشغلہ ہے۔ اردو میری محبوب ترین زبان ہے اگرچہ انگریزی اور فارسی میں بھی طبع آزمائی کرتی ہوں”
گُل و بلبل کا وہ رنگین چمن یاد آیا
حافظ و سعدی کی غزلوں کاوطن یادآی
انھوں نے ایک جگہ لکھا تھا ” یوں تو میں نے فطرتاً انسانیت اور کل کائنات سے پیار کرنا سیکھا ہے لیکن ‘ اے سرزمین ہند مجھے تجھ سے پیار ہے’ میرا نعرہ رہا ہے۔ شعر و سخن اور افسانہ نگاری کا بچپن سے شوق ہے۔ میں اپنی خوشی کے لئے لکھتی ہوں۔ یہ میرا محبوب مشغلہ ہے۔ اردو میری محبوب ترین زبان ہے اگرچہ انگریزی اور فارسی میں بھی طبع آزمائی کرتی ہوں”انھوں نے ایک جگہ لکھا تھا ” یوں تو میں نے فطرتاً انسانیت اور کل کائنات سے پیار کرنا سیکھا ہے لیکن ‘ اے سرزمین ہند مجھے تجھ سے پیار ہے’ میرا نعرہ رہا ہے۔ شعر و سخن اور افسانہ نگاری کا بچپن سے شوق ہے۔ میں اپنی خوشی کے لئے لکھتی ہوں۔ یہ میرا محبوب مشغلہ ہے۔ اردو میری محبوب ترین زبان ہے اگرچہ انگریزی اور فارسی میں بھی طبع آزمائی کرتی ہوں”
Leave a comment