Afsanay

Adhoori Muhabat – ادھوری محبت

Share
Share

میرا نام امجد علی ہے ۔میرا تعلق ایک امیر گھرانے سے ہے میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں میری پیدائش پر بہت خوشیاں منائی گئیں ۔میری پرورش وہت لاڈ پیار اور امیرانہ اندا زمیں کی گئی ۔ میری ہر خواہش کو پورا کیا جاتا میرے والد صاحب مجھے بہت پیار کرتے تھے۔ اس لیے میری ہر خوشی اور ہر خواہش کا پورا خیال رکھتے مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا اس لیے والد صاحب نے مجھے ایک اچھے اسکول میں داخل کروایا میں بہت ذہین تھا اور شوق سے پڑھائی کرتا تھا۔ میںہر کلاس میں اول آتا میں اپنی پڑھائی میں پوری طرح محو تھا ۔دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق کھیلنا کودنا یہاں تک کہ میری زندگی بہت خوشگوار تھی۔
میرے سارے کزن بہت اچھے تھے ۔سارے ہمارے گھر گرمیوں کی چھٹیاں گزارتے تھے ہم سب خوب مزے سے گرمیوں کی چھٹیاں گزارتے تھے ہمارے گھر میں ایسی رونق ہو جاتی تھی جیسے کے ایک شادی والے گھر میں ہوتی ہے ۔ ہم سب نے اکھٹے چھٹیوں کا ہوم ورک کرنا اور اکھٹے کھیلنا کودنا ہم مقابلے پر ہوم ورک جلدی ختم کر لیتے تھے ۔
میں8th کلاس میں تھا جب میری زندگی میں ایک نیا موڑ آیا ہم سب کزن اکھٹی چھٹیاں گزارتے تھے اس لیے ہم سب میں کافی دوستی تھی۔ مگر میری ایک کزن سے کچھ زیادہ ہی دوستی تھی کیوں کہ شروع ہی سے وہ مجھے اچھی لگتی تھی اور میں پورا سال بے چینی میں ا س کے آنے کا انتظار کرتا تھا ۔وہ میری ہم عمر بھی تھی میں 8th کلاس میں تھا اور وہ 7th کلاس میں تھی۔اب میں یہ چاہ رہا تھا کہ جتنی جلدی ہو سکے میں اس سے اپنی دل کی بات کہہ ڈالوں،مگر ایسا کوئی موقع نہیں مل رہا تھا اور پھر وہ لوگ چلے گئے اور میری بات دل میں ہی رہ گئی۔
٭…٭…٭
میرے انکل یعنی ماہ نور کے ابو میرے والد صاحب کے شاگرد تھے اور اکثر ہی ہمارے پاس آیا کرتے تھے ۔لیکن ہم سب کزنوں کی ملاقات ایک سال بعد یعنی گرمیوں کی چھٹیوں میں ہواکرتی تھی اس بار انکل آئے تو انہوں نے ابو جان سے کہا میں امجد کو کچھ دن کے لیے اپنے ساتھ لے جاوں یہ کچھ دن رہ لے گا اور ہمارا شہر بھی دیکھ لے گا۔ مگر ابوجان نے انکار کر دیا اور کہا کہ دسمبر کی چھٹیوں میں ہم آپ کے پاس آئیں گے خیر انکل مان گئے اور میں اب شدت سے دسمبر کی چھٹیوں کا انتظار کرنے لگا ۔
اﷲ اﷲ کر کے دسمبر بھی آگیا ہم لوگ انکل کے گھر چلے گئے ۔ایک دن سب گھر والے اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے اور میں گھر کہ صحن میں لگے پیپل کے درخت کے نیچے لیٹا ڈائجسٹ پڑھ رہا تھا۔ ۔ماہ نور میرے پاس آ کر بیٹھ گئی اور پوچھا ”امجد میں تمہارا ہوم ورک کر دوں؟میرا تو ختم ہوگیا ہے ” میں نے مسکرا کر کہا ”جی ضرور کر دو یہ تو میری خوش نصیبی ہوگی۔”وہ بھی مسکرا دی میں نے کہا ٹھیک ہے تم کچھ دیر تک میرے سے بکس لے جانا ۔یہ اچھا موقع تھا اپنے دل کی بات کہنے کا وہ چلی گئی اور میں نے جلدی سے ایک خط لکھا اور اس کی کتاب میں رکھ دیا جس میں ،میں نے اپنے دل کی بات کہہ دی وہ کچھ دیر کے بعد کتابیں لینے آئی تو میں نے اسے کتاب اور رجسٹر دے دیا اور سارا کام بھی سمجھا دیا اور اسے کہا کہ ماہ نور کتاب میں ایک خط ہے اس کا جواب ضرور دینا میں انتطار کروں گا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے اور وہ چلی گئی۔
رات ہو گئی رات کے کھانے کے بعد سب برے اپنی باتوں میں مصروف تھے ماہ نور نے کہا ” امجد تمہارا جتنا کام میں نے کیا ہے وہ تم دیکھ لو ٹھیک ہے ؟” میں نے کہا ”اچھا میں دیکھ لوں گا۔” اس نے میرے سرہانے کتاب اور رجسٹر رکھ دیا رات دیر تک ہم باتیں کرتے رہے اور پھر سب سونے کے لیے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے مجھے بھی تو نیند آہی رہی تھی مگر میں نے تو ابھی خط کا جواب بھی لکھنا تھا۔ سب چلے گئے تو میں نے کتاب میں سے خط نکالا اور پڑھنے لگا جو کچھ یوں تھا ۔
ڈیئر امجد! میں اس بات پر بہت خوش ہوئی کہ تم مجھ سے پیار کرتے ہو سچ کہوں تو میں بھی تم سے پیار کرتی ہوں مگر کہنے کی ہمت نہ تھی بچپن سے ہی تم مجھے اچھے لگتے ہو میں تمہیں دل سے چاہتی ہوں امجد یہ تم نے بہت اچھا کیا کہ خط دے دیا میں تو پہلے ہی تم سے بہت زیادہ پیار کرتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ تم بھی مجھے اتنا ہی پیار کرتے ہو گے۔خط کا خط کا جواب ضرور دینا ۔
میں خط پڑھ رہا تھا اور اتنا خوش تھا کہ بتا نہیں سکتا ۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی جسے میں چاہتا ہوں وہ بھی مجھے پہلے سے چاہتی ہے جلدی سے میں نے جواب لکھنا شروع کیا ۔
٭…٭…٭
خط لکھ کر جلدی سے میں نے اپنی کتاب میں رکھا اور لیٹ گیا ۔رات بھی بہت تھی۔میری تو خوشی سے نیند ہی اڑ گئی تھی ساری رات انہی سوچوں میں رہا خیر ہماری باتوں کا سلسلہ اسی طرح خطوں کے ذریعے چلتا رہا اور وہ دس دن کیسے گزرے پتا ہی نہ چلا اور میرے گھر آنے کا دن آگیا ۔اس دن وہ کافی افسردہ تھی اس کے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی دل میرا بھی نہیں چاہ رہا تھا اس وقت ان کے گھر میں ایک ہی موبائل تھا جو کہ اس کے ابو کے پاس ہوتا تھا۔ اب تو گرمیوں کی چھٹیاں بھی اداسی اور غم میں گزر جاتی کیوں کہ انکل نے یہ کہہ کر سب کو گھر لانا چھوڑ دیا تھا کہ بچے اب سب جوان ہوگئے ہیں۔ پھر جو سال بعد دیدار ہوتا تھا وہ بھی ختم ہوگیا اس بات کو دو سال بیت گئے ۔ہماری محبت پروان چڑھتی رہی اس کی بہن تو ہماری اس بات سے با خبر تھی ایک بار جب ہمارے گھر ہمارے نانا ابو کا سالانہ ختم شریف تھا تو انکل اور آپی فرزانہ آئیں۔ آپی نے مجھے بازو سے پکڑا اور ایک طرف لے گئیں اور کمرے میں جا کہ اپنے بیگ سے ایک بڑا سا گفٹ نکال کر مجھے دیا اور کہا کہ رات میں کھولنا ابھی اسے کہیں چھپا دو میں نے سب سے نظریں بچا کر اس گفٹ کو اپنے کمرے میں رکھ دیا۔ کیوںکہ گھر تو مہمانوں سے بھراپڑا تھا ۔ اﷲاﷲ کر کے رات ہوئی میں جلدی سے اپنے کمرے میں آیا اور وہ گفٹ جو میری جان مانو نے بھیجا تھا اسے کھولنے لگا ایک ڈائری ایک پین اور کچھ رنگین اوراق پر پینٹنگ اور شاعری لکھی ہوئی تھی اور ساتھ ہی ایک لیٹر تھا میں نے وہ بھی جلدی سے کھولا اور پڑھنے لگا ۔
رات کے نو بجے تھے اور سب لوگ جا چکے تھے کچھ دور کے رشتے دار ہمارے گھر رک گئے تھے میں نے جلدی س یاپنے دوست کو کال کی اور کہا کہ جلدی میرے گھر آؤ کچھ کام ہے ۔اس کے بعد ہم بازار چلے گئے چند ایک دکانیں کھلی تھیں ۔میں نے ایک اچھی سی گھڑی ایک اچھا سا چوڑیوں کا سیٹ اور وصی شاہ کی ایک کتاب”میں محبت اور تم” خرید لی اور ان کو پیک کروا لیا خط بھی ساتھ میں لے آیا تھا باقی تصویریں آپی کو ویسے ہی دینی تھیں کیوں کہ اتنے کم وقت میں بنوا نہیں سکتا تھا تو موبائل کے میموری کارڈ میں ہی ڈال کر آپی کو کارڈ اور گفٹ دے دیا۔
٭…٭…٭
میں نے میٹرک پاس کر لیا تھا اور وہ بھی 9th کے پیپر دے چکی تھی ۔سالگرہ پر انکل نے مانو کو موبائل دے دیا جس پر وہ بہت خوش ہوئی میرے پاس تو پہلے سے ہی موبائل تھا اب ہماری روز باتیں ہوتی انتطار ختم ہو چکا تھا دوری موبائل نے ختم کر دی تھی۔ اب تو دن رات باتیں ہر پل کی خبر ایک دوسرے کو دیتے تھے ہماری زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی۔
ایک دن میںنے امی جان کو بتا دیا کہ میں ماہ نور کو پسند کرتا ہوں اور اسی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔امی جان میری بات سن کر مسکرائیں اور کہنے لگیں مجھے خوشی ہوئی کے تم ماہ نور کو پسند کرتے ہو اور جو کہ پہلے سے ہی تمہاری ہو چکی ہے ۔”
میں امی کے یہ الفاظ سن کر حیران ہوگیا ۔میں نے پوچھا کیا مطلب امی جان…؟امی کہنے لگی امجد جب تم پیدا ہوئے تھے تو ماہ نور ایک سال کی تھی اور تمہارے انکل اور آنٹی نے کہا تھا کہ ماہ نور ہم نے امجد کو دی۔یعنی تمہارا دونوں کا رشتہ تو بچپن سے ہی ہو چکا ہے ۔مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا میں بہت خوش ہوا کے مجھے دنیا بھر کی خوشی مل گئی ہے۔ امی نے مسکرا کر کہا اب جلد میں اور ابو ماہ نور کے کے گھر جائیں گے تمہاری شادی کی بات کرنے ۔ یہ بات سن کر میں اور خوش ہوگیا میں نے کچھ کہا بھی نہیں اور سب کچھ میری مرضی کے مطابق ہو رہا ہے ۔واہ میرے مالک تو کتنا بے نیاز رحمنٰ اور غفور رحیم ہے میری خوشی میں شکرانے کے کئی الفظ میرے منہ سے بے ساختہ ہی نکلے ۔
رات کو مانو کو کال کی اور اسے یہ خبر سنائی تو اس کی بھی خوشی کی انتہا نہیں رہی میں تو ڈرتی تھی پتہ نہیں کیا ہوگا ۔
کچھ دن بعد امی اور ابو انکل کے گھر گئے اور میرے رشتے کی بات کی انکل نے کہا ماہ نور تو ہم پہلے ہی آپ کو دے چکے ہیں اب تو یہ ہمارے پاس آپ کی امانت ہے آپ جب چاہیں اس کو لے جا سکتے ہیں۔ ابو نے کہا” منگنی کی رسم اداکی جائے پھر…؟”اس بات پر بھی انکل اور آنٹی بہت جلد راضی ہوگئے اور منگنی کی انگوٹھی امی جان نے بڑے پیار سے ماہ نور کو پہنائی چند دن بعد وہ بھی آکر منگنی کی رسم ادا کر کے چلے گئے امی نے جب مجھے فون پر بتایا تو میں اتنا خوش ہوا کے کیا بتاؤں جس پر فوراً ربّ کا شکریہ ادا کیا اور کالج کے سب دوستوں کو پارٹی دی وہ دن میری زندگی کا سب سے اہم دن تھا۔ اس دن میںاپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا خؤش نصیب سمجھ رہا تھا ۔
امی ابو گھر آگئے اور شادی کی تیاریاں شروع ہوگئی انکل نے ایک سال کا ٹائم رکھا تھا ۔شادی کے لیے سب رشتے داروں نے مبارکباد دی سارے کالج کے فرینڈ نے بھی مجھے مبارکباد دی یعنی ہر طرف میری منگنی کی ہی خبر تھی۔ اور ہمارے گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہونے لگیں۔ہماری ہر روز فون پر بات ہوتی کئی بار تو ساری ساری رات گزر جاتی مگر ٹائم گزرنے کا احساس تک نہ ہوتا ۔
٭…٭…٭
میری ہر خواہش تو بچپن سے ہی پوری ہوتی تھی مگر یہ خواہش تو ان سب سے بہت اہم تھی ۔میری منگنی کو اب چھ ماہ گزر چکے تھے اور اب انکل بھی ہمارے گھر کم آتے تھے ۔ ان کا اب اپنا کاروبار بھی ٹھیک تھا۔ میرے بڑے کزن اور آپی فرزانہ کی شادی بھی ہوگئی دونوں شادیوں پر میں گیا تھا اور ہماری ملاقات بھی ہوئی تھی۔ میرے کزن کی بیوی یعنی میری بھابھی جان اور ان کی ساری فیملی لندن میں ہوتے ہیں اور وہ انکل کے رشتے داروں میں سے تھے ۔ اب تو ان کے دن ہی پھر گئے تھے بھابھی جان اپنے ساتھ ساتھ ڈھیر سارا جہیز بھی لائیں تھیں انہوں نے تو پہلے ایک بڑی سی کوٹھی بنائی اور پھر تمام زندگی کی ضروریات اشیاء ان کے گھر میں آنے لگیں ۔مانو نے میٹرک پاس کر لیا تھا شرط بھی یہی تھی کہ جب ماہ نور کا میٹرک ہو جائے گا تب شادی کریں گے ۔میرے بھی فرسٹ ایئر کے امتحانات ہو چکے تھے ایک دن امی نے ابو سے بات کی کہ امجد کے ابو ایک سال ہو گیا ہے اب ہمیں ماہ نور کے گھر والوں سے شادی کی تاریخ لے لینی چاہیے ۔ وہاں پر تو سارے حالات ہی بدل چکے تھے بس ہر طرف پیسہ ہی پیسہ سب رشتہ داروں کو وہ بھول چکے تھے ۔
ماہ نور مجھے روز کال کرتی تھی اور کہتی تھی کہ” اب بھیجو اپنے گھر والوں کو” امی اور ابو جان نے فیصلہ کیا کہ ہم جائیں گے ۔ لیکن اس سے پہلے اطلاع کر دیں ابو نے انکل کو کال کی کہ اب ہمیں آپ کے پاس آجانا چاہیے ماہ نور نے بھی میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کر لیا ہے اور ایک سال گزر چکا ہے ۔ انہوں نے کوئی اچھا جواب نہیں دیا بلکہ کہا کہ ابھی آپ لوگ مت آئیں میں گھر مشورہ کر کے اپنی بہو سے مشورہ کر کے آپ لوگوں کو کال کرؤں گا ابو جان نے کہا ٹھیک ہے اس بات کو ایک ہفتہ گزرگیا مگر کوئی کال نہیں کی ابو اور امی اس بات پر پریشان تھے ہم نے تو شادی کی ساری تیاریاں مکمل کر لی تھیں۔ابو نے پھر کال کی پر انکل نے بہت بے رخی سے بات کی اور کہا کہ آپ انتظار کریں ہماری بہو آئے گی تب اس سے بات کر کے پھر آپ کو بتائیں گے ۔
٭…٭…٭
ان دنوں بھابھی لندن گئی ہوئی تھیں ماہ نور بھی اب بات کرتے ہوئے ڈرتی تھی پہلے تو ہم ساری ساری رات بھی بات کرتے تو اسے کوئی پرواہ نہ ہوتی تھی اب تو ایک منٹ سے زیادہ بات بھی نہ کرتی تھی۔ مجھے اس بات کی ٹینشن تھی کہ کوئی پرابلم ہے جو یہ وجہ بن رہی ہے ۔ایک دن انہی سوچوں میں گم اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اچانک میرے موبائل کی لائٹ روشن ہوئی اور کال آئی مانو کی کال تھی ۔ میں نے جلدی سے پوچھا کیسی ہو مانو؟ کہاں تھی اتنے دن سے بات کیوں نہیں کی؟ کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاؤ؟ میں نے کال اٹھاتے ہی سب سوالات کر دیے اس نے کوئی نہ کوئی جواب دیا اتنا کہہ کہ فون کاٹ دیا کہ”امجد مجھے بھول جاؤ” مجھے ا س بات پر یقین نہ آیا میں سمجھا کہ شاید مذاق کر کرہی ہوگی مگر جب میں نے کال بیک کی تو نمبر آف جا رہا تھا مجھے کچھ سمجھ نہ آرہی تھی کہ کیا ہوا ہے یہ سب…۔
میں کافی پریشان ہوگیا کہ آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس کی روتی ہوئی دبی ہوئی آواز میں یہ الفاظ کے”امجد مجھے بھول جاؤ” میرے کانوں میں گونج رہی تھی میرا سر چکرا رہا تھا کمرے میں ہر چیز گھومتی ہوء دکھائی دے رہی تھی۔ مجھے کافی تیز بخار ہوگیا اور میں کالج بھی نہ جا سکا۔ میرے دوست بھی گھر آگئے اور کہا کہ امجد کیا ہوا ہے تمہیں کیا بات ہے تم اتنے پریشان ہو اور اتنا تیز بخار کیسے ہوا؟۔میں نے انہیں توو کچھ نہ بتایا ،مگر یہ بات مجھے اندر ہی اندر کھائی جا رہی تھی اور بار بار میرے کانوں سے ٹکراتی تھی کچھ دیر بیٹھ کر سب چلے گئے میری طبعیت سے گھر والے بھی کافی پریشان تھے میری نیند بھوک پیاس مر چکی تھی چند ہی دنوں میں ،میں ایک ہڈیوں کا دھانچہ بن گیا تھا۔
ایک دن امی جان میرے پاس آئیں اورکہنے لگی” بیٹا آخر بات کیا ہے مجھے تو بتاؤ ماہ نور سے بات ہوئی تمہاری؟ ”اس نے کچھ کہا ہے کیا ؟ میں ان کی بات سن کر رونے لگا ور روتے روتے ہوئے بتا دیا امی جان میری بات سن کر بہت پریشان ہوئیں اور کہنے لگیں ۔”میں فون کرتی ہوں اور ماہ نور سے پوچھتی ہوں کہ یہ بات اصل میں کیا ہے ؟”امی کو بھی ا سکی بات پر یقین نہیں آرہا تھا۔کیوں کہ وہ ایسی تھی ہی نہیںاگلے دن امی نے ان کے گھر کال کی اور بات کرنے کی پوری کوشش کی مگر نہ انہوں نے مانو سے بات کروائی اور نہ خود سیدھے طرح سے بات کی امی کافی پریشان ہوگئیں اور ابو بھی اب تو ہم سب گھر والے پریشان تھے ۔
ابو نے انکل کوکال کی مگر انہوں نے فون ہی نہں اٹھایا ۔میں نے فرزانہ آپی کو کال کی باجی کیا بات ہے آپ ماہ نور سے بات کر کے بتاؤ اور میںنے وہ رات والی بات بھی آپی کو بتائی وہ بھی کافی پریشان ہوگئیں اور سارا معاملہ دیکھا وہاں تو سب کچھ بدلا ہواتھا۔
٭…٭…٭
آپی نے مجھے فون پہ سب کچھ بتا دیا کہ ماہ نور سے موبائل لے لیا گیا ہے اور انکل نے ماہ نور کا موبائل اور سم توڑ دیے ہیں اس کا اب کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔کسی سہیلی کو بھی نہیں ملنے دیتے اور نہ ہی کسی اور سے ماہ نور کو ایک کمرے میں بند کر دیا گیا ہے اور جب وہ امجد تمہاری یا تمہارے گھر کی بات کرتی ہے تو اسے مارا جاتا ہے ۔یہ فون بھی اس نے دباؤ میں آکر کیا تھا کہ ماجد مجھے بھول جاؤ آپی نے بتایا کہ امجد ماہ نور آج بھی تمہیں اتنا ہی چاہتی ہے جتنا شروع سے چاہتی تھی مگر اب تمہارے انکل یعنی ماہ نور اور آپی کے ابو ماہ نور کی شادی بھابھی کے بھائی جو کہ لندن ہوتا ہے اس سے کرنا چاہتے ہیں ۔یہ بات سنتے ہی جیسے میرے سر پہ قیامت ٹوٹ پڑی ہو جس نے بہت مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالا آپی نے مجھے بتایا کہ معاملہ بہت خراب ہو چکا ہے میں بھی کچھ نہیں کر سکتی میری بات سننے کو بھی تیار نہیں ہے۔
ماہ نور کو کسی سے ملنے جلنے تک نہیں دیا جاتا تھا ایک سال سے چھوڑ کر کر 4 سال گزر گئے لیکن نہ ہی ان لوگوں نے آج تک اس بارے میں کوئی بات کی تھی اور نہ ہی کرنا چاہتے تھے ۔کبھی وہ دن تھے کہ انکل کے پاس اتنا بھی نہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کا پیٹ پال سکے ایک ٹوٹے پھوٹے گاؤں کے دیہاتی ماحول کے مکان میں رہتے تھے یہاں تک کے ان کے گھر باتھ روم تک نہیں تھا۔ میرے والد صاحب نے انکل پر ترس کھا کر انہیں اپنا شاگرد بنا لیا تھا انکل کو اپنے بیٹوں اور چھوٹے بھائی کی طرح شفقت اور پیار دیا اپنا ہنر اور ساری عمر کا تجربہ انہیں سکھایا میرے والد صاحب نے انکل کا بھر پور ساتھ دیا۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کے خود غرض اور بے فیض لوگ اس طرح کے ہوتے ہیں ۔احسان فراموش اس طرح کے ہوتے ہیں ۔چلو کچھ نہیں میرے والد صاحب کے شفقت اور پیار کا یہ صلہ دیا انکل نے ؟ اتنا بھی کیا دولت کے لالچ میں اندھا ہونا کہ انسان اپنے محسن کو ہی بھول جائے ۔
بچپن میں رشتہ کرنے والے بھی یہ انکل اور آنٹی خود تھے ۔میرے والد صاحب کا خیال اس وقت نہ تھا نہ ہی انہوں نے اس بات کا اظہار کیا تھا ۔ بلکہ آنٹی نے خود ماہ نور کو میرے لیے منتخب کیا تھا اور کہاتھا ماہ نور ہم نے آپ کو دی خدا کو حاضر اور ناظر جان کر…کیا اﷲ پاک کو حاضر ناظر جان کر جو اقرار جو عہد کیا جائے ایک مسلمان ا س اقرار سے منہ پھیر سکتا ہے ۔ بس اﷲ پاک معاف کرے ان منافق لوگوں سے جو دولت کی لالچ میں آکر اپنے اﷲ پاک سے کئے اقرار وعدے تک بھول جاتے ہیں۔
٭…٭…٭
مجھ میں برائی ہی کیا تھی؟امیر ہوں دنیا کی ہر چیز ہے میرے پاس اﷲ نے رنگ روپ اچھا دیا ہے شکل اچھی دی ہے ہر لحاظ سے اﷲ پاک کا بے حدمشکور ہوں مگر…؟ کیوں؟4 سال گزر جانے کے بعد بھی اس کی یاد دن رات ستاتی ہے ۔میں اس کے لیے آج بھی اتنا ہی تڑپتا ہوں جتنا شروع سے تڑپتا تھا وہ میرے دل میں آج بھی آباد ہے میں روز اس کی تصویر کی سامنے بیٹھ کر آنسو بہاتا ہوں اس سے کئی باتیں کرتا ہوں مگر سب فضول وہ مجھے دیکھتی رہتی ہے اپنے لب نہیں ہلاتی میرا مستقبل میرا حال سب میرے ماضی کی یادوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
والدین سب دوست میری حمایت سے بے حد پریشان تھے۔ میری بیماری کی وجہ سے ابو کافی پریشان ہو چکے تھے اور اب مجھے کچھ احساس ہونے لگا تھا کہ ان لوگوں کے لیے اپنا آپ کیوں گنوانا جن کی ماں باپ ہی دولت ہے اور وہ دولت کی ہوس میں اتنے اندھے ہو چکے ہین کہ اپنے کسی رشتے دار کی کبھی انہیں یاد نہیں ستاتی ایسے لوگوں کے لیے خود کو کیوں بربادکرنا میں نے اسی رات فیصلہ کیا اب اسے بھلا کر اپنی ایک نئی دنیا بساؤں گااپنے والدین کے لیے ۔
قارئین مجھے دنیا کی حقیقت سمجھ آگئیمجھے زندگی کی حقیقت سمجھ آگئی یہ دنیا کا ایک دھوکہ ہے سب مطلبی ہیں اپنی غرض کے لیے لوگ سب رشتے ناطے برسوں سے جڑے بندھن بھی توڑ دیتے ہیں ان والدین کا کیا قصور جنہوں نے مجھے پالا جوان کیا۔ ایک لڑکی ایک پیارکے لیے اپنے ماں باپ کو دکھ پہنچاؤں ؟نہیں ،نہیں مجھے اپنا مستقبل بنانا ہے ایک نئی دنیا بسانی ہے جہاں دور دور تک ا سکی یاد نہ ہو میں 4 سال کے بعد اسے بھلانے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں۔
٭…٭…٭
میں نے ا س پیار کے کھیل سے کچھ حاصل نہیں کیا بس ظلم ستم ہی سہتا رہا ماہ نور تو آج بھی مجھے اُتنا چاہتی ہے یا نہیں آج مجھے اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں وہ کہاں ہے کیسی ہے اپنی زبردستی اور مجبور زندگی میں خوش ہے بھی یا نہیں ہے۔ اب مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں میں اپنی زندگی کو ا س کی یاد سے رہا ئی دلوانا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کے میں اب اپنے والدین کی بات مان لوں اور شادی کر لوں۔اور میری پروردگار سے دعا ہے کہ یا اﷲ مجھے کوئی ایسا جیون ساتھی دے جو مجھے اتنا پیار دے کہ میں ا س بے وفا کو بھول جاؤں مگر اسے بے وفا بھی تو نہیں کہہ سکتا وہ تو مجبور تھی مجھے اتنا پیار دے کہ مجھے ماہ نور کی یاد تک نہ آئے ۔
جی تو میرے پیارے قارئین تو یہ تھی امجد کی داستان محبت،جس میں امجد کو پیار میں ناکامی ہوئی جس کی وجہ نہ تو اس کا جواب تھا اور نہ ہی ماہ نور کا جواب تھا ۔ بلکہ ا س بے رحم زمانے نے ان دونوں کو ایک نہ ہونے دیا ایک دولت کی ہوس نے دو پیار کرنے والوں کی زندگی کو تباہ و برباد کر دیا ۔اب امجد کو ہوش آچکا ہے اور اسے زندگی کی حقیقت سمجھ آچکی ہے ۔انسان کو زندگی میں بہت سی خوشیاں تو ملتی ہیں مگر کئی ایسی خواہشات ہوتی ہیں جو لاکھ کوششوں کے باوجود بھی پوری نہیں ہوتیں۔
٭٭…٭٭

Leave a comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اردو ادب، شاعری اور نثر – سب ایک جگہ
آپ کے ذوق کی دنیا، بس ایک کلک کی دوری پر

Get The Latest Updates

Subscribe to our newsletter to get our newest articles instantly!

Copyright 2025 . All rights reserved Huroof powered by Arkanteck.