میں ایک گائوں کا رہنے والا لڑکا زندگی سے لڑتے لڑتے شہر میں آگیا۔ میں شہرمیں کیسے آیا؟ کیوں آیا؟ یہ ایک الگ بات ہے لیکن شہر میں رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ میں ایک پڑھا لکھا لڑکا ہوں لیکن نوکری وغیرہ نہ ملنے کی وجہ سے مزدوری بھی کی اور فیکٹریوں میں بھی کام کیا۔ میں اس مزدوری والی زندگی سے تنگ آچکا تھا۔ اس لیے میں نے سوچا کوئی چھوٹا سا اپنا کاروبار کیا جائے، پھر ایک ہمدرد انسان مجھے ملا، جس نے مجھے موبائل ریپیئرنگ کا کورس کروایا۔ میں دن میں مزدوری اور شام کے بعد موبائل کورس کرنے جاتا تھا۔ میں نے اپنی محنت اور کوشش سے موبائل کورس مکمل کرلیا، پھر میں نے اپنی کالونی میں چھوٹی سی دکان کھول لی۔ مجھے اس کام میں تقریباً دو سال ہوچکے تھے۔ میرا دل ایک عاشق مزاج کا ہے۔ میں شاعری کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہوں۔میرا ذہن ایک بچے کی طرح ہے، جو چیز دل کو بھاجائے، اُس کو پانے کی تڑپ مجھے سونے نہیں دیتی اور اُس کو پانا میری زندگی کا مقصد بن جاتا ہے، پھر میرے بس میں نہ بھی ہو۔ لیکن دل تو پاگل ہے، دل کو کون سمجھائے۔میں ایک صائمہ لڑکی کا ذکر سنتا تھا کہ وہ بہت خوب صورت ہے۔ اس کی سیرت بھی اچھی ہے اور صورت بھی۔ میرے دل میں یہ خیال آنے لگا کہ اس لڑکی سے دوستی کی جائے۔ لیکن کریں تو کیسے کریں، نہ وہ مجھے پہچانتی ہے اور نہ ہی میں نے اُس کو دیکھا ہے۔ میں نے سُنا تھا تو صرف اُس کا ذکر سنا تھا۔ اس کے بارے میں باتیں سنتے ہی میرے دل میں ہلچل مچ جاتی تھی اور یہ ہی سوچنے لگا کہ صائمہ سے رابطہ کس طرح کیا جائے۔ اور کس طرح اس سے دوستی کی جائے۔ سارا دن اور ساری رات اسی سوچ میں گزرنے لگے تھے۔ دن بہ دن اس کی تڑپ بڑھتی جارہی تھی۔ لیکن کروں بھی تو کیا کروں؟ کیسے بولوں کہ صائمہ میں آپ کے لیے کتنا تڑپتا ہوں۔ آپ کی تڑپ مجھے سونے نہیں دیتی۔ میرا چین سکون اب تم سے ہے اور یہ زندگی کی ہر خوشی آپ سے وابستہ ہے لیکن اب میری یہی کوشش تھی کہ کسی طرح سے بھی صائمہ سے رابطہ کیا جائے۔ایک دن ایسا ہوا کہ اُس کا فون نمبر میری نظر سے گزرا اور میں نے نوٹ کرلیا۔ اب سوچ رہا تھا کہ بات کروں تو کیسے کروں۔ میں نے کافی سوچ بچار کے بعد ایک اسلامی ایس ایم ایس اسے بھیج دیا اور اُس سے پوچھ لیا کہ ”کون ہو…؟”میں اُس کو الٹے سیدھے جواب دیتا رہا لیکن میں اُس کو بہت تنگ کرنے لگا تھا اُس کی بے رخی اور کڑواہٹ کی باتیں بھی مجھے بہت اچھی لگنے لگی تھیں۔ میرا دل اُس کی طرف کھنچا جارہا تھا۔ اب تو میرے دل میں صائمہ کے لیے چاہت بڑھتی جارہی تھی۔ اگر وہ اک پل کے لیے بھی بات نہ کرتی تو مجھے رونا آجاتا تھا اور میں خود کو تنہا سمجھنے لگتا تھا اور مجھے ایک بات تڑپانے لگی کہ میں صائمہ کو کیسے بولوں کہ میں اُس سے پیار کرتا ہوں۔ مجھے ڈر لگتا تھا، شاید وہ بات بھی کرنا نہ چھوڑدے۔ایک دن میں نے اُس کو SMS کیا، جس میں میں نے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ صائمہ نے یہ پڑھ کر بہت غصہ کیا اور کہنے لگی۔”یہ کیا مذاق ہے؟ میں اور تم سے محبت۔” یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے صائمہ سے کہا۔”میں بن آپ کے رہ نہیں سکتا۔ پلیز آپ بات کریں۔” صائمہ سے بھی میرے آنسو برداشت نہیں ہوئے اور وہ بات کرتی رہی، آہستہ آہستہ صائمہ کو بھی مجھ سے محبت ہونے لگی۔یہ پیار کی بھی عجیب تڑپ ہے، نہ دیکھا نہ پہچانا، یہ کیسا پیار ہے؟ یہ کیسی تڑپ ہے؟اب میرے دل میں یہ تمنا جاگ اُٹھی تھی کہ صائمہ سے ملاقات کی جائے اور صائمہ میں اپنی پہچان کروں اور دیکھوں کہ صائمہ کیسی ہے؟مجھے یقین تھا کہ صائمہ ایک خوب صورت لڑکی ہے۔ میں نے صائمہ سے کہا۔”آپ مجھ سے ملیں۔” پہلے تو اس نے منع کیا کہ میں نہیں مل سکتی لیکن میرا ناراض ہونا اُس سے برداشت نہیں ہوا اور اُس نے ملنے کا وعدہ کرلیا۔ اُس نے کہا کہ ”میں 7 اپریل کو کالج جائوں گی، پھر آپ بھی آجانا ہم مل لیں گے۔” 7 اپریل کو آنے میں ابھی 5 دن باقی تھے اور مجھ سے یہ دن بھی برداشت نہیں ہورہے تھے۔ 7 اپریل کے دن کا مجھے شدت سے انتظار تھا۔ رات دن یہ سوچ تھی کہ جلد وہ دن قریب آجائے کہ میں اپنی صائمہ سے مل پائوں۔ دیکھوں کہ صائمہ کیسی ہے۔ آخر جب ایک دن باقی رہ گیا تو مجھے ساری رات نیند نہیں آئی اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں صائمہ کا سامنا کیسے کروں گا۔ وہ مجھے پسند کرے گی بھی یا نہیں۔مجھے اتنا پتا تھا کہ صائمہ پنجاب کے ایک گائوں کی رہنے والی لڑکی ہے اور اُس کا تعلق کسی اچھے گھرانے سے ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ صائمہ مجھے کس لباس میں پسند کرے گی۔ میں تو شلوار قمیص اور پینٹ شرٹ پہنتا تھا۔ میں نے یہی سوچا کہ صائمہ گائوں کی رہنے والی لڑکی ہے اور وہ مجھے سادگی میں بہت پسند کرے گی۔ یہی سوچتے سوچتے پوری رات گزر گئی اور صبح ہوتے ہی میں نے صائمہ سے پوچھا۔”آپ کس وقت گھر سے نکلوگی۔ اُس نے کہا کہ میں 10 بجے تک گھر سے روانہ ہوجائوں گی۔ آپ بھی آجانا۔” میں بہت سادگی سے سنور کے اس کی بتائی ہوئی جگہ پر روانہ ہوا۔ وہاں پہنچا تو دیکھا بہت ساری اور بھی کالج کی لڑکیاں تھیں تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے ایک خوب صورت لڑکی کھڑی ہے۔ اس کی تیر نما آنکھیں، گول مٹول چہرہ، مدھم رفتار۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے قدم زمین پر نہیں تھے۔ میں دیکھتے ہی ہوش و حواس کھو بیٹھا تو مجھے یقین ہوا کہ صائمہ یہی ہے۔ میں نے سائیڈ میں ہو کے کال کی۔”صائمہ تم کہا ہوں؟” اُسی خوب صورت لڑکی نے کال اُٹھائی اور بات کی۔ ”میں کالج پہنچ گئی ہوں، آپ کہاں ہو؟” میں نے کہا۔”میں بھی آپ کے آس پاس ہوں۔”پھر صائمہ نے کہا۔ ”آپ مل لو” میں صائمہ کے پیچھے گیا اور کہا۔”ہائے صائمہ” صائمہ نے پلٹ کے جیسے ہی مجھے دیکھا تو اس کی کیا آنکھیں تھیں، پہلی بار اس سے ملتے ہی مجھے ایسا لگا کہ میری زندگی صائمہ کی آنکھوں میں ہے۔پہلے تو وہ ڈرگئی، پھر اس نے ہنس کے بات کی لیکن میری سادگی دیکھ کے کچھ اچھا نہیں لگا اسے۔ شہر میں آکے شہر کی زندگی میں گائوں کے خیالات بدل گئے تھے۔ دس پندرہ منٹ بعد اس نے کہا۔”اب آپ چلے جائو۔” شاید اس کو میرا ملنا پسند نہیں آیا تھا۔ مجھے بے رخی سے بولی کہ آپ نے مل لیا اور آپ چلے جائو، یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور افسوس بھی ہوا کہ آج میں بھی روزانہ کی طرح سنور کر آتا تو صائمہ کو شاید اچھا لگتا۔ صائمہ کی بے رُخی برداشت تو نہیں ہورہی تھی لیکن کرتا بھی تو کیا کرتا۔ وہ مجھے تنہا چھوڑکر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد بھی مجھے ایسا لگا کہ زندگی کی ہر خوشی جیسے روٹھ گئی ہو اور میں خود کو تنہا سمجھنے لگا تھا۔ صائمہ کی بے رُخی مجھے بُری تو نہیں لگی لیکن دکھ ضرور ہوا۔میں اپنے تھکے ہوئے قدموں کے ساتھ واپس گھر آگیا اور پھر مجھے صائمہ نے کال کی کہ آج ہم دونوں کو ساتھ میں میری سہیلی نے دیکھ لیا ہے۔ اس لیے آپ میرے ساتھ بات مت کریں اور مجھے بھول جائیں۔ میں اپنی سہیلی کو خود سنبھال لوں گی۔ یہ سن کر میرے تو ہوش حواس ہی ختم ہوگئے۔ پہلے ہی آنکھیں اشک بار تھیں، پھر تو ساون کی موسم کی طرح آنسو برسنے لگے۔ میں ساری رات سو نہیں سکا اور دل میں تڑپ بڑھنے لگی اور صائمہ سے میں یہ شکوہ کرنے لگا۔”تم میرے ساتھ یہ مت کرو، ایسا نہ ہو کہ میں جینے کی آرزو کھو بیٹھوں۔ میرا آپ کے بنا کوئی نہیں۔ یہ سوچتے سوچتے میرا دن بھی گزر گیا اور میں نے شام کو صائمہ کو کال کی اور کہا۔ ”صائمہ میرے ساتھ ایسا مت کرو ابھی مجھ سے بات کرو۔ اب مجھ سے رہا نہیں جارہا۔” تو صائمہ نے کہا۔”تم مجھ سے بات مت کرو۔ میں بغیر آپ کے رہ سکتی ہوں اور میں خوش ہوں۔”میں نے اس سے کہا۔ ”صائمہ میں تمہیں آہستہ آہستہ چھوڑدوں گا، بھول تو تمہیں نہیں سکتا لیکن میں تمہارے سائے سے بھی دور ہوجائوں گا۔ آپ مجھ سے کچھ دنوں کے لیے بات کریں۔ اگر کسی کا اک دم دل ٹوٹتا ہے تو، درد ہوتا ہے۔” صائمہ سے میرا رونا برداشت نہیں ہوا اور اس نے کہا۔ ”چلو ٹھیک ہے، کچھ دنوں کے لیے میں آپ کا ساتھ دوں گی۔”میرا اُداسی والا عالم گزر رہا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد مجھے پتا چلا کہ اس کی سہیلی وغیرہ کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ یہ ایک صائمہ کی مجھ سے جان چھڑانے کی چال تھی، مجھے دُکھ تو ہوا لیکن میں نے صائمہ سے کچھ نہیں کہا۔پندرہ بیس دن گزرنے کے بعد صائمہ نے مجھے کہا۔ ”اب تو آپ بھول جائو مجھے۔” دل تو نہیں کررہا تھا میرا کہ صائمہ سے میں دور ہوجائوں لیکن صائمہ کی رضا یہی تھی کہ میں اُس سے دور ہوجائوں۔ میں نے صائمہ سے کہا۔”آپ مجھ سے آخری بار مل لو، تاکہ میں آپ کو اتنا دیکھ لوں کہ زندگی بھر میری آنکھوں میں آپ کی تصویر بسی رہے۔” پہلے تو صائمہ نے منع کیا لیکن میری کافی التجا کے بعد اس نے ہاں کردی اور اُس نے کہا۔”میں 5 مئی کو کالج جائوں گی، آپ بھی مل لینا۔” آخر وہ دن بھی آنا ہی تھا۔ میں نے وہ دن رات تڑپتے ہوئے گزارے۔ صبح ہوتے ہی میں زندہ لاش کی طرح کالج کی طرف چلا گیا۔ ملاقات خوشی کا باعث ہوتی لیکن یہ ملاقات ایسی تھی جس میں اپنی زندگی کو خود اُجاڑنا تھا۔میں جب صائمہ سے ملا تو اس کے ساتھ اس کی دوست بھی تھی۔ صائمہ کے سامنے میں اپنی آنکھ نم اور اُداس دل لے کے کھڑا رہا۔میں نے جب صائمہ کو ہاتھ دیا، پہلے تو اس کا دل نہیں بول رہا تھا لیکن پھر میرے اصرار کو دیکھ کے اس نے ہاتھ ملایا۔ مجھے ایسے لگا کہ اس کے ہاتھ ملانے سے میں انمول بن گیاہوں۔ میں نے اس کی دوست کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے ہاتھ نہیں ملایا۔ دکھ تو بہت ہوا لیکن غلطی میری تھی کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن صائمہ کی خاطر اس کو عزت دینا میرا فرض تھا۔ اگر وہ ہاتھ دیتی بھی تو کیا ہوجاتا، شاید مجھے اتنا دُکھ نہیں ہوتا لیکن میں نے خود پر ملامت کرتے ہوئے صائمہ سے کوئی شکایت نہیں کی۔ صائمہ سے کچھ پل باتیں کرتے مجھے بہت اچھا لگا۔ اس کی بے رخی کی باتیں بھی دل کو راحت دینے سے کم نہیں تھیں۔کچھ دیر بعد صائمہ نے مجھے کہا۔ ”اب آپ نے مل لیا، اب جائو اور مجھے کوئی SMS یا کال نہیں کرنا۔” میں نے نظریں جھکا کر کہا۔ ”ٹھیک ہے۔ آپ خوش رہو۔” یہ میرے پیار کی کامیابی ہے اور کبھی بھی درد آپ کے ڈوپٹّے کو نہ چھوئے۔ میرے اب دکھ بھرے دنوں کا آغاز ہے۔ میں نے تم سے محبت کی تھی اور کرتا رہوں گا۔ میری جتنی محبت کوئی اور نہیں کرسکتا آپ سے لیکن میری دعا ہے کہ آپ کو اتنا پیار ملے کہ آپ کو کبھی تنہائی کا احساس نہ ہو۔ میری آنسو بھری آنکھوں کو چھوڑ کر وہ چلی گئی اور میں اپنے تھکے ہوئے قدم راہوں پے بھٹکتے بھٹکتے گھر پہنچ گیا۔ آج ایسا لگ رہا تھا جیسے میرا پورا شہر اُداس ہو۔ دل تو کررہا تھا کہ صائمہ سے بات کروں لیکن صائمہ نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ اب مجھ سے آپ کوئی رابطہ نہیں کرو گے۔ صائمہ کی خوشی کے لیے میں نے اپنی خوشیوں کا گلہ دبادیا۔ بھول تو نہیں سکتا لیکن میری ہر سانس کے ساتھ آپ کو دعا ملے گی اور آج سے ہماری درد بھری زندگی کا آغاز ہے اور مرتے دم تک آنسو گرتے رہیں گے۔٭…٭
Leave a comment