سیکڑوں لوگ تھے جن میں خواتین سمیت ہر عمر کے مرد اور بچے پریس کلب لاہور کے باہر بڑے بڑے کتبے اور بینرز اٹھائے رخسانہ کے قتل کا انصاف مانگ رہے تھے، جسے رخسانہ کے والد عبدالغفور کی زبانی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا ۔ جس کی لاش دوروز تک مکئی کے کھیت میں جنگلی جانوروں کے رحم و کرم پر پڑی رہی ۔
اِس روداد کے پیچھے جس حوالے کو راقم الحروف نے بڑی گہرائی سے دیکھا وہ خاصاپریشان کُن ہے۔
اوکاڑہ کے نواحی قصبہ36-37ٹو آر کے رہائشی اس خاندان کے تعلق عرصہ دراز سے اسی گائوں کے عیسائی خاندان سے بڑے قریبی چلے آرہے تھے۔ یہاں تک کہ رخسانہ اور نامزد ملزمان ستار مسیح ولد لال مسیح کی زوجہ کیتھرین ایک جان دو قالب کی مثال تھیں۔رخسانہ کے بہنوئی فاروق نے بار ہا بار رخسانہ کے خاوند شوکت علی کو اس میل ملاپ سے روکا مگر کیتھرین کے خاوند ستار مسیح نے فاروق کو روک کر اس سے باز پرس کی کہ تم اپنے آپ کو اس معاملہ سے دور رکھو۔نامزد ملزمان رشید مسیح ، امین مسیح ،ستار مسیح اور کیتھرین کے خلاف تھانہ صدر اوکاڑہ میں درج ایف آئی آر کے مطابق رخسانہ کو اغوا کیا گیا اور مکئی کے کھیت سے رخسانہ کی لاش ملی، جس کے چہرے پر انسانی دانتوں کے واضح نشانات تھے اور لاش کی حالت بتا رہی تھی کہ اسے بری طرح پائمال کیا گیا تھا جس کی تصدیق بعد میں رپورٹ ملنے پر سامنے آئی کہ اسے قتل سے پہلے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیاتھا ۔
اس واقعے کی مکمل تفصیل جاننے کے لیے جب میں تھانہ صدر اوکاڑہ میں ستار مسیح سمیت دیگر نامزد ملزمان سے ملا تو سب نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ ملزمان کو سیاسی آشیر باد حاصل ہونے کی بنا پر خاصا مطمئن پایا ۔کئی ایک لوگوں کی زبانی معلوم ہو ا کہ ستار مسیح اور مقتولہ کے خاوند میں خاصا مضبوط دوستانہ چلا آرہا تھا ۔ستار مسیح رخسانہ کے خاوند کو نوکری دلوانے میں پیش پیش رہتا، کبھی وہ دونوں میاں بیوی کو فیصل آباد لے جاتا نوکری دلوانے کی غرض سے اور وہ اکٹھے ہی رہائش پذیر ہوتے۔ کئی کئی ماہ یہ سلسلہ چلتا رہتا۔
اسی طرح فتح پور بنیادی مرکز صحت میں اَن ٹرینڈدائی کے کورس میں داخلہ لیے رُوکی(رخسانہ) کو ابھی بیس روز ہی ہوئے تھے کہ مرکز صحت کے تمام عملہ کی اینٹ سے اینٹ بج گئی ۔مرکز انچارج ایچ ٹی صادق جو خود کو ڈاکٹر کہلوانا پسند کرتا ایل ایچ وی نجمہ اور میڈ وائف زبیدہ جو سالہا سال سے ایک فیملی کی طرح اس مرکز صحت میں تعینات اس علاقہ کے لوگوں کو طبی سہولت فراہم کر تے آرہے تھے ڈاکٹر صادق رخسانہ کی بیس روزہ حاضری کے دوران پانچ بار رخسانہ کی طرف سے ہونے والے معاملات میں الجھے اور علاقے کے بااثر افراد کی سخت تنقید کا سامنا کر چکے تھے۔ رخسانہ پارٹی بازی کی بڑی ماہرانہ فنکارہ تھی ایک دوسرے سے لڑانا اس کے ایک جھٹکے کا کمال تھا۔
بنیادی مرکز صحت خواتین اور بچوں سے بھرا ہوا تھا مہینہ وار راشن کی تقسیم تھی جو ایل ایچ وی کی ذمہ داری میں شامل ہونے کی بنا پر زچہ و بچہ کی ہسٹری درج کر نے کے بعد خشک دودھ، گندم ، بٹر، آئل وغیرہ دیا جاتا۔ خداجانے رخسانہ نے وہاں موجود خواتین میں کون سا شوشا چھوڑا کہ تمام خواتین نے وہاں احتجاج شروع کر دیا۔ جس کا نشانہ ایل ایچ وی اور ڈسپنسر خادم تھا، جن پریہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ وہ راشن خرد برد کرتے تھے۔ اس احتجاج کی باز گشت قریبی پولیس چوکی میں ہوئی تو ملازمین دندناتے ہوئے مرکز میں آگئے ۔
شکایات کا دفتر کھل گیا۔ رخسانہ پیش پیش تھی۔ نہ تو اس کا یہ پتا چل رہا تھا کہ وہ احتجا ج کرنے والوں کے ساتھ تھی اور نہ یہ معلوم ہو رہا تھا کہ وہ مرکز صحت کے عملہ کی وکالت کر رہی ہے۔دیگر عملہ ایک طرف ہوکر بیٹھ گیا، ڈسپنسر اور ایل ایچ وی اس صورت حال کو ہینڈل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ سالہا سال سے چلتا ہوا پروگرام پل بھر میں متنازعہ ہو گیا اور وہ سب خواتین مارنے مرنے پر تیار ہو گئی تھیں۔
آخر کار چوکی انچارج راشن کے سٹور کو تالا لگا کر چابی ساتھ لے گیا۔ جاتے جاتے مرکز صحت کے عملہ کو کہہ گیا کہ اس کا فیصلہ محکمہ صحت کا کوئی آفیسر ہی آکر کرے گاکیونکہ یہ غیر ملکی امداد کا معاملہ ہے۔ یہ محکمہ ہی حساب لگائے گا کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہوتا آرہا تھا۔سب راشن لینے والی خواتین بچوں سمیت واویلا مچاتی واپس چلی گئیں۔
رخسانہ ایل ایچ وی کے کمرے میں چہرے پر یاسیت کا نقاب سجائے اس سے مخاطب ہو ئی۔
”میڈیم آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ سب کچھ کہیں ڈاکٹر اور میڈ وائف زبیدہ کا کیا دھر اتو نہیں۔ میرا مطلب کہیں یہ سازش دونوں نے مل کر کی ہو کہ آپ کی ٹرانسفر کروا کر سارا نظام دائی زبیدہ کے ہینڈ اوور ہو جائے اور یہاں راشن میں بھی ان کی اجارہ داری قائم ہو جائے۔ میڈیسن پر تو وہ پہلے ہی قابض چلے آرہے ہیں۔ میں نے اپنے والد کے لیے کھا نسی کا شربت مانگا تو وہ کہنے لگی ابھی ایشو نہیں کیا۔”منہ کا زاویہ بگاڑتے ہوئے اس نے ایل ایچ وی پر اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔
”مجھے نہیں پتا ڈی ایچ او صاحب خود آکر سب کچھ دیکھ لیں گے۔ میں آفس جاکر ساری صورت حال ان سے بیان کر دوں گی یہ کہتے ہوئے وہ رجسٹر وغیرہ دراز میں رکھتے تالا لگا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
٭…٭…٭
دوسرے روز محکمہ صحت کے اہلکاروں نے آکر سارا سٹور اور ریکارڈ چیک کیا تو انہیں کوئی بھی بے ضابطگی نظر نہ آئی مگر یہ سب کچھ کیسے ہوا کسی نے اس بارے کوئی نوٹس نہ لیا اور وہ سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا ۔
رخسانہ کو دو ماہ ہوگئے مگر وہ کبھی کبھار کوئی اوچھا ہتھکنڈا ضرور کر گزرتی۔ چوکیدار نور محمد کا کوارٹر اس نے صاف کرکے اس میںاپنا تھوڑا بہت سامان رکھ لیا تھا کیونکہ نور محمد رات کی ڈیوٹی کر کے قریبی بستی میں اپنے گھر چلا جاتا ۔رخسانہ چونکہ اسی گائوں کی رہائشی تھی سب کے ساتھ اس کے روابط اس لیے بھی کھلم کھلا تھے کہ سب لوگ اسے جانتے تھے خاص کر پولیس چوکی کا عملہ اس کے دائرہ کارمیں تھا۔
نور محمد چوکیدار نے رخسانہ کو اس بات پر رضا مند کر لیا تھا کہ کبھی کبھار اکبر خان کا تھوڑا بہت مال جس میں چرس ، افیون شامل تھی اپنے کوارٹر میں رکھ لیا کرو اور چوکی والے تو تیری طرف آنکھ بھر کر بھی نہیں دیکھتے وہ تمہاری خدمت بھی کر دیا کرے گا۔ یوں’ رُوکی’ اکبر خان کے ساتھ مل کر منشیات کا دھندا کرنے لگی۔
اس کی ہوس دن بدن بڑھتی جا رہی تھی اس کے مراسم ایسے لوگوں سے بھی ہو گئے تھے جن کو اکبر خان براہ راست اس کے پاس رکھا مال لینے بھجوا دیتا۔
گائوں میں ایک دو گھر عیسائیوں کے بھی تھے اور ان کے پرمٹ تھے شراب کے ۔رخسانہ ان سے شراب خرید کر مہنگے داموں آگے فروخت کرنے لگی تھی۔ منہ متھے لگتی تھی اور اسے دوسروں سے کام نکلوانے کا فن بھی آتا تھا۔
مرکز صحت کی بدنامی ہو رہی تھی مگر عملے کے کسی ملازم کی جرأت نہ ہوتی اس کے راستے میں آنے کی۔ اس نے بطور اَن ٹرینڈ دائی یہاںداخلہ لیا اور اس ایریا کو اپنی مذموم سرگرمیوں کی آماجگاہ بنا لیا۔ اس کے گھر والے بھی کھلے دل کے لوگ تھے۔ وہ اس کی سرگرمیوں میں اس کی معاونت کرتے۔ اکبر خان نے اسے اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ وہ اِدھرکامال اُدھرڈلیور کرے۔
رات کی تاریکی میں گاڑیاں مرکز صحت پر آتیں اور رخسانہ کے کوارٹر پر دیر تک لین دین کا سلسلہ جاری رہتا۔ پولیس چوکی چند قدم پر تھی مگر وہ سب اس کے اشاروں پر ناچتے تھے۔ اس کے کوارٹر پر ادھر ُادھر سے اسی قماش کی عورتیں بھی دھڑلے سے آتیں اگر محکمہ کا کوئی ملازم باز پرس کر تا تو وہ آپے سے باہر ہو کر ٹرانسفر کروانے کا رعب ڈالتی تووہ چپ ہوجاتا۔
٭…٭…٭
ان ہی دنوں اکبر خان نے اسے ایک پیکٹ دیا اور سرگودھا روانہ کر دیا۔ یہ اس کی پہلی ڈیل تھی جو وہ اپنے علاقہ سے دورکرنے جارہی تھی ۔خوبرو تو تھی ہی اس نے وہ پیکٹ زیر جامہ کیا اور دوپہر ڈھلنے سے قبل اپنے کوارٹر سے نکل کر سڑک پر آگئی۔ اس نے اپنا جو پلان بنایا تھا وہ یہ تھا کہ کسی گزرتی کار کو جس میں فیملی ہو اس میں لفٹ کی کوشش کرے گی۔ دو چار گاڑیوں کو ہاتھ دیا مگر کامیابی حاصل نہ ہوئی آخر کار ایک ایمبولینس جو کہ کوئی مریض لے کر جا رہی تھی، ہاتھ دینے پر رُک گئی ۔ایمبولینس میں موجود مریض کے ورثا نے ریکویسٹ پر اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
فیصل آباد تک کا سفر بخیر یت ہو ا اوروہ اتر کر بس اسٹینڈ کی طرف چل دی ۔
شام ہو رہی تھی اور اسے ایک اکیلی بیٹھی خاتون کے برابر سیٹ مل گئی۔ جو راستہ اس نے اختیار کر لیا تھا اس کا انجام تباہی تھا مگر وہ ان سب سے بے خبر صرف دولت کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ بس سرگودھا کے بس اسٹینڈ پر رکی تووہ بھی سواریوں کے ساتھ بس سے باہر آگئی ۔پی سی او پر آکر اس نے رابطہ نمبر ڈائل کیا اوردوسری طرف رابطہ ہونے پر اس نے بولنے والے کو بتایا کہ وہ اسٹینڈ کے اندر ہی پی سی او میں ہے۔ یہ بتا کر اس نے فون کاٹ دیا اور پی سی او کے ایک طرف ہو کر انتظار کرنے لگی ۔
تھوڑی دیر بعد ایک موٹرسائیکل سوار نو عمر لڑکا اس کی طرف آتے رک گیا اور نام لے کر مخاطب کیا۔ رخسانہ نے سر ہلا کر تائید کی اوراس کے ساتھ موٹرسائیکل پر سوار ہوگئی۔
وہ لڑکا جس نے اپنا نام عبداللہ بتایا تھا اسے لے کر مختلف گلیوں سے ہوتا ہوا ایک مکان کے آگے آکر رکا دروازہ کھلا تھا۔ وہ اسے لے کر اندر داخل ہو گیا ۔
گھر کے اندر خاتون خانہ جس کا نام رضیہ تھا نے اس کا خیر مقدم کیا اور بتایا کہ یہ میرا بیٹا ہے جو کام میں میرا ہاتھ بٹاتا ہے ۔اکبر خان نے رخسانہ کو بتایا تھا کہ جس کے پاس تم مال لے کر جارہی ہو وہ خودبھی منشیات کا کام کرتی ہے۔ خاوند اس کا قتل کے سلسلہ میں جیل تھا پیچھے وہ گھر اور اس کا مقدمہ سنبھال رہی تھی۔ پیکٹ اس نے رضیہ کے سپرد کیا اور اس کے پیچھے چلتی ہوئی کمرے میں آگئی۔ اس کی دو بیٹیاں نصرت اور عشرت بھی کمرے میں آگئیں۔ چائے وغیرہ کے بعد کھانا لگ گیا ۔ رات گئے تک رُوکی ان سے باتیں کرتی رہی۔ پھر ان کے درمیان ہی سو گئی ۔
صبح ناشتہ سے فارغ ہو کر عبداللہ کے ہمراہ بس اسٹینڈ پر آئی اور واپسی کے لیے بس میں سوار ہوگئی۔ اس کی پہلی ڈیل بغیر کسی مسئلہ کے کامیاب ہو گئی۔
٭…٭…٭
رخسانہ ہوس ِ زر کے جال میںاُلجھتی چلی گئی اِدھر اُدھر منشیات سمگل کرتی کرتی وہ لاکھوں میں کھیلنے لگی۔ اپنی گاڑی خرید لی۔ الگ سے گھر خرید لیا۔اپنے دونوں بھائیوں اور باپ کو بھی اسی کاروبار میں شامل کر لیا ۔کئی بار یہ سب لوگ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ،جیل بھی گئے پھر ضمانت پر باہر آکر وہی دھندا شروع کردیتے۔
اسی قماش کے ایک بڑے منشیات فروش توکل سے رخسانہ نے شادی کر لی۔ توکل کے آنے سے باپ بھائیوں کے ساتھ اَن بن ہوگئی وہ دونوں کے کاروبار سے الگ ہوگئے ۔ دونوں طرف سے سرد جنگ شروع ہوگئی۔ ایک دوسرے کی مخبری میںپولیس کی چاندی ہو نے لگی اور یہ سلسلہ طویل ہوتا گیا۔
رخسانہ کا بڑا بھائی عبدل ذرا غصے والا تھا۔ ایک دو بار اُس نے توکل اور رخسانہ کے ساتھ مار پیٹ بھی کی۔
بات پولیس تک جا پہنچی۔ گرفتاریاں ،مقدمات دونوں طرف سے چلنے لگے مگر دونوںنے ہار نہ مانی۔ توکل اور رخسانہ اپنی گاڑی پر چالیس کلو چرس لے کر آرہے تھے کہ عبدل کو اس کے بارے میں خبر ہو گئی۔ ابھی وہ راستے میں ہی تھے کہ اس نے پھول نگر پولیس کو ان کا گاڑی نمبر دیتے ،بھاری منشیات سمگل کرنے کا بتایا۔ پولیس نے ناکہ لگاتے گاڑی روکی اور تلاشی پر چرس برآمد ہو گئی۔ وہ دونوں میاں بیوی گرفتار ہو گئے اور جیل چلے گئے۔
٭…٭…٭
جب ضمانت پر باہر آئے تو سیدھے عبدل کے گھر مصلحت کے لیے گئے مگر رخسانہ کے والد نے دونوں کو بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا۔ دونوں کو اپنی بے عزتی کا بڑا دکھ ہوا۔ اُن کو پتا چل گیا تھا کہ پھول نگر پولیس کو مخبری عبدل نے کی تھی۔
”رُوکی ہمیںتمہارے بھائی کی وجہ سے بہت نقصان اٹھانے پڑ رہے ہیں۔” توکل نے رخسانہ کو مخاطب کر تے گلہ کیا۔
”میں خود بھی بہت پریشان ہوں، ان کے رویے سے ۔”رخسانہ نے توکل کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”تو پھر کیا کرنا چاہیے۔” توکل نے بدستور پریشان کن انداز میں اس سے پوچھا۔
” توکل میں کیا کہہ سکتی ہوں ۔اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو مجبوراً کوئی قدم اٹھانا ہوگا۔” توکل نے چہرے پر سختی لاتے اس کی جانب دیکھا ۔
”میں تمہیں نہیں روکتی۔” کہتے ہوئے وہ اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔ توکل کے اندر رخسانہ کے گھر والوں کیلئے غصہ اور نفرت کا الائو روشن تھا، جو لمحہ بہ لمحہ بلند ہو تا جا رہا تھا ۔
توکل نے اپنے ایک ملنے والے مفرور اشتہاری فضلو بلوچ سے رابطہ کر کے یہ پلان تیار کر لیا کہ کوئی موقع دیکھ کر عبدل پر دھاوا بول دینا ہے۔
اُدھر عبدل اپنے باپ بھائی کے ہمراہ دونوں کو ٹھکانے لگانے کا پکا پروگرام بنائے بیٹھا تھا۔ رخسانہ اور توکل شہر سے واپس آرہے تھے۔وہ تینوں باپ بیٹے ان کے انتظارمیںٹوٹے روڈ کے ایک جانب کماد کی فصل میں چھپے ہوئے تھے۔ اس سڑک پر گاڑی کی رفتاری رینگنے کی حد تک سُست ہو جاتی تھی۔
جب اُن کی گاڑی ان سے کچھ فاصلے پر آہستہ ہوئی تو وہ تینوں اسلحہ سے لیس فصل سے نکل کر سڑک پر آگئے۔ گاڑی کے سامنے آکر عبدل نے فائر کھول دیا۔
پہلے برسٹ نے رخسانہ کے پرخچے اڑا دیے دوسری طرف عبدل کے بھائی اور باپ نے فائر کھول دیا۔ توکل اس حملہ کے لیے بالکل تیار نہیں تھا ورنہ وہ اپنا پستول نکال لیتا مگر پے در پے گولیوں نے اسے سٹیرنگ پر ہی ڈھیر کر دیا۔ دونوں جانب سے ٹریفک رُک گئی تھی۔ باپ بھائی اپنے خون کو پانی کی طرح بہا کر موٹر سائیکل پر موقع واردات سے فرار ہو گئے ۔
٭…٭…٭
پولیس آئی دونوں کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال بھجوا کر ان کے پیچھے گرفتاری کے لیے چڑھ دوڑی مگر پولیس کو بھاگ دوڑ نہ کرنی پڑی۔ وہ تینوں اسلحہ سمیت تھانے میں حاضر ہو گئے۔
گرفتاری عمل میں لائی گئی اوران کے اقرار جرم اور اسلحہ کی برآمدگی کے بعد ان کو جیل بھیج دیا گیا ۔ مقدمہ کی پیروی توکل کا چھوٹا بھائی کر رہا ہے مگرعدم دلچسپی کی بنا کر پر شاید وہ تینوں کمزور استغاثہ کی بنا پر جلد باہر آجائیں۔ مگر رخسانہ سے سبق لے کر کتنی بیٹیاں اِس دلدل میں جانے سے باز رہیں گی اور کتنی ہیں جو دوسری رخسانہ بننے کی تیاری کررہی ہوں گی۔
کسی کو پتا ہے یہ؟
٭٭…٭٭
Leave a comment