گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن ایسا لگا بسر ہوئے جنت میں چار دن عمر خضر کی اس کو تمنا کبھی نہ ہو انسان جی سکے جو محبت میں چار دن جب تک جیے نبھائیں گے ہم ان سے دوستی اپنے رہے جو دوست مصیبت میں چار دن اے جان آرزو وہ قیامت سے کم نہ تھےکاٹے ترے بغیر جو غربت میں چار دن پھر عمر بھر کبھی نہ سکوں پا سکا یہ دل کٹنے تھے جو بھی کٹ گئے راحت میں چار دن جو فقر میں سرور ہے شاہی میں وہ کہاں ہم بھی رہے ہیں نشۂ دولت میں چار دن اس آگ نے جلا کے یہ دل راکھ کر دیا اٹھتے تھے جوشؔ شعلے جو وحشت میں چار دن
چہرہ تھا جیسے چاند کی صورت میں چار دن
ہم بھی رہے تھے خواب کی حالت میں چار دن
آئی جو یاد شامِ فراقِ حیات میں
بیتے سحر بھی درد کی شدت میں چار دن
بارش ہوئی تو زخم بھی دھلنے لگے مرے
دل بھی رہا ہے کیف کی حالت میں چار دن
پھر ہم کو زندگی سے گلہ کچھ نہیں رہا
تم جو رہے تھے ساتھ محبت میں چار دن
چاہت میں تیرے ضبط کے موسم رہے عروج
جلتے رہے مگر لبِ حسرت میں چار دن
ثانیؔ نے جب لکھی غمِ ہجراں کی داستاں
قرطاس جل اٹھا تھا حرارت میں چار دن
حسین ثانی

Leave a comment