Afsanay

Hawa Ki Piyas – ہوا کی پیاس

Share
Share

انمول پیر پٹختی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ یہاں تو گھر آنا ہی مصیبت ہے اس سے بہتر ہے بندہ رات دیر تک گھر آئے ۔وہ بیگ ٹیبل پر پٹختی ہوئی صوفے پر جا کر بیٹھ گئی۔
”کیا ہوگیا ہے انمول اتنے غصے میں کیوں ہو؟” مہرین جو کپڑے استری کر رہی تھی انمول کو غصے میں دیکھ کر بولی۔”
”کیا ہونا ہے آپی ابھی گھر میں گھسی ہوں وہ اشرف کا بچہ میرے گھر میں گھستے ہی پوچھ رہا ہے کہ” اتنی دیر کیوں لگا دی یونیورسٹی سے آنے میں ؟”کیا وہ میرا باپ لگتا ہے۔”
اشرف کا نام لیتے ہوئے وہ دانت پیستے ہوئے بولی اس کا بس چلتا تواشرف کو کچا چبا جاتی۔
”اوہ اچھا اس لیے جناب کا مو ڈ خراب ہے ۔بری بات ہے انمول وہ بیچارا اتنی دیر سے تمہارا انتظار کر رہا تھا۔آخر کا ر وہ اتنی دور سے تم سے ملنے آیا ہے۔” مہرین کے شرارت سے بولنے پر انمول آنسو بھری آنکھوں سے بڑی بہن کی جانب دیکھنے لگی۔انمول کے آنسو دیکھ کر مہرین شرمندہ سی ہوکر انمول کے برابر آکر بیٹھ گئی۔
”سوری میری جان میں تمہیں تنگ کر رہی تھی۔”
”آپی یہ تنگ کرنا اور شرارتیں وہاں اچھی لگتی ہیں جہاں دونوں کی رضا مندی ہوتی ہے زور زبردستی کے رشتوں میں یہ شرارتیں نہیں ہوتی بلکہ یہ سمجھوتے ہوا کرتے ہیں اور یہ آپ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا ۔”انمول کی بات پر مہرین آنسو پیتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔
٭…٭…٭
”امی کیا پکایا ہے ؟” انمول ہاتھ منہ دھو کر کچن میں عالیہ بیگم کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔جو سلاد کے لیے سبزی کاٹ رہی تھیں۔”مٹر گوشت بنایا ہے ۔”
آپ کو پتا ہے میں نہیں کھاتی مٹر گوشت بلکہ ہمارے گھر میں کوئی بھی زیادہ شوق سے نہیں کھاتا پھر بھی بنا لیا آپ نے ۔
”کوئی کھائے نہ کھائے میرا بلال تو کھاتا ہے۔”ارشد صاحب جو نماز پڑھ کر آئے تھے انمول کی آواز سن کر وہی کچن کے باہر کھڑے ہو کر غصے سے بولنے لگے ۔
وہ چپ کر کے کمرے کی جانب چل دی۔ وہ کب سے بیڈ پر خاموش لیٹی ہوئی تھی۔آج یونیورسٹی میں بھی کچھ نہیں کھایا تھا ۔سوچا تھا گھر جا کر کھائے گی۔آہٹ پر چونک کر دروازے کی جانب دیکھنے لگی۔عالیہ بیگم دودھ کا گلاس لیے اس کی جانب آگئیں۔”میری بیٹی نے کچھ بھی نہیں کھایا یہ لو میں روح افزاء ملا کر لائی ہوں اپنی گڑیا کے لیے ۔”عالیہ بیگم اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھانے لگیں۔’
‘امی میرا دل نہیں ہے ،بھوک نہیں ہے ۔”ماں سے جھوٹ بولتی ہو میں جانتی نہیں ہوں کہ میری بیٹی نے آج کچھ نہیں کھایا ۔ ماں کی بات پر وہ شکوہ بھری نگاہوں سے ماں کی جانب دیکھنے لگی۔”آپ کو کیا آپ کی اولاد تو بس بلال ہے ہم بیٹیاں تو عذاب ہیں آپ کے لیے ۔”
٭…٭…٭
عالیہ بیگم آنکھوں میں نمی لیے ہوئے بولیں سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ماں کو کہہ رہی ہو۔ انمول اپنے لہجے کی تلخی پریشیمان سی ہو کر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ماں کے ہاتھ سے گلاس لے کر پی لیا ۔عالیہ بیگم بیٹی کو پیار کرتی ہوئی چلی گئیں ۔وہ دوبارہ بیڈ پر لیٹ گئی، سونے کی کوشش کرنے لگی مگر نیند تھی کہ قسمت کی طرح روٹھی ہوئی کہ مان کر ہی نہ دے ۔
تھک کر وہ بیڈ سے اتر کر کھڑکی میں آکر کھڑی ہوگئی۔سیاہ گھور آسمان کو دیکھتی ہوئی اپنی قسمت کے
بارے میں سوچنے لگی۔ میں نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی ہے جہاں پر بیٹیوں کی پیدائش پر افسوس کیا جانا ہے ۔میرے ماں باپ کا تعلق گاؤں سے ہے۔
مگر شادی کے بعد شہر آگئے ۔اس طرح میرے آدھے رشتے دار شہر آکر بس گئے تھے ۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ شہر کی رنگینیوں میں آکر کھوگئے تھے ۔ مگر کچھ نام و نہاد روایتیں جو ہمارے خاندان کی تھیں ان کی آج بھی پاسداری کی جاتی تھی۔ میرا نام انمول ہے میں چار بہنوں سے چھوٹی ہوں اور میرے بعد ایک بھائی جو مجھ سے دو سال چھوٹاتھا ۔جب میری سب سے بڑی بہن سدرہ آپی کی پیدائش ہو ئی تو ہمارے رتشتے داروں نے میرے باپ کو مبارک باد دینے کے بجائے افسوس کیا ۔ یکے بعد دیگر بیٹیوں کی پیدائش نے میرے باپ کو میری ماں سے بدظن کر دیا تھا۔میرے باپ نے میری ماں کو پہلے بھی کبھی کچھ نہیں سمجھا تھا ۔ان کی بات کی کبھی گھر میں کوئی اہمیت نہیں تھی، مگر اب تو وہ بالکل ہی غیر اہم ہوگئی تھیں۔
میرے بعد جو میرا چھوٹا بھائی جو ہم پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اس کی پیدائش پر میرے گھر میں جشن کا سماں تھا ۔ اس دن ہم بہنوں کو ایک کمرے میں بند کر دیا گیا تھا تاکہ ہماری نحوست کے سائے ہمارے بھائی پر نہ
پڑیں اس دن میرے باپ کا فخر سے سینہ پھولا ہو اتھا۔ہم بہنیں اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھ رہی تھیں۔
میرے باپ نے ہمارے چھوٹے بھائی کو گود میں لیا ہوا تھا۔ ہر تھوڑی دیربعد محبت سے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ۔
اس وقت مجھے اپنی پیشانی خالی خالی سے محسوس ہوئی۔ کیوں کہ میرے باپ نے کبھی میرے سر پر پیار سے بھی ہاتھ نہیں رکھا تھا ۔پورا صحن دلہن کی طرح سجا ہوا تھا ۔پہلے پہل جب میں چھوٹی تھی تو خوب ماں سے الجھتی مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ چیز سمجھ آگئی تھی کہ میری ماں بھی اتنی ہی بے بس ہے ۔
میرے تایا اور تائی ہمارے ساتھ رہا کرتے تھے ۔ وہ بے اولاد تھے ۔ وہ ہمارے گھریلو معاملات میں بولنا فرض سمجھتے تھے ۔ میری بچپن میں ماموں کے بیٹے اشرف سے بات طے کر دی گئی تھی۔ جب مجھے خبر ہوئی تو میں نے بہت ہنگامہ کیا مگر میری ماں نے اپنی قسم دے کر چپ کرایا۔جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی باپ کی نفرت کو سمجھتی گئی۔
ہمارے ماں باپ ہم بہنوں کے ساتھ اگر کوئی احسان کیا تھا تو وہ تعلیم دلوانے کا۔ مگر اس احسان کی بھی بہت اچھے سے سمجھ آگئی تھی۔کیوں کہ ان کا کہنا تھا کہ جو تعلیم تم لوگ حاصل کر رہے ہو اس کو فائدے میں لاؤ یعنی اپنا خرچ خود اٹھاؤ۔
٭…٭…٭
میںنے آٹھویں کلاس سے کمانا شروع کر دیا تھا اپنی بہنوں کی دیکھا دیکھی کیوں کہ وہ خود بھی پڑھتی تھیں اور پڑھاتی بھی تھیں۔
میرے باپ نے آہستہ آہستہ میری ہر ذمہ داری سے ہاتھ کھینچ لیا۔ جب میں نے غور کیا تو انہوں نے بقیہ چار بہنوں کے ساتھ بھی یہی کیا تھا ۔یہ نہیں کہ میرا باپ کوئی غریب انسان تھا۔ لاکھوں میں کھیلتا تھا۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ پیسا صرف بیٹے پر لگانا چاہیے۔ان سب باتوں کو جھیلتے ہوئے میں یونیورسٹی پہنچ گئی تھی اور ماسٹر کر رہی تھی ۔
اشرف مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ وہ گاؤں میں رہتا اورمیٹرک پاس تھا ۔بالوں میں ہر وقت تیل لگائے موٹا موٹا نین نقش،آنکھوں میں سرمہ بھرے ہوئے ، جب مجھے اس سے اپنے رشتے کی نوعیت کا پتہ چلا اس دن ہچکیوں سے روئی تھی۔ہمارا رونا بھی میرے باپ کے پتھر دل کو موم نہیں کر سکا ۔
٭…٭…٭
میں شہر کی پلی بڑھی اور جس گاؤں میں میرے ماموں رہائش پذیر تھے وہاں ابھی بجلی گیس کی سہولت نہیں پہنچی تھی۔میری تین بہنوں کی شادی میرے باپ نے اپنی مرضی سے خاندا ن میں کی تھی۔
ہمارے خاندان میں کوئی آٹھویں جماعت سے زیادہ کا پڑھا ہوا نہیں تھا۔ میری بہنوں کی شادی میرے تایا اور باپ کی مرضی تھی۔میری ماں کو سارے معاملے سے دور رکھا گیا تھا ۔
میری تینوں بہنیں خوش شکل اور پڑھی لکھی تھیں اور میرے باپ نے اپنے تینوں داماد ایسے ڈھونڈے تھے کہ میں سوچ کر رہ گئی تھی کہ میرے باپ کو اپنی بیٹیوں سے ایسی کیا دشمنی ہے۔
میری چوتھے نمبر کی بہن مہرین آپی جن کو کوئی ایک بار دیکھ لے تو ان کا دیوانہ ہو جائے۔آپی کی یونیورسٹی میں ان کے کلاس فیلو علی بھائی جو آپی کو چاہتے تھے۔
علی بھائی کی فیملی امریکہ میں سیٹل تھی اور اب وہ بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہیں واپس جا رہے تھے۔ مگر بہت جلد واپس آنے کا وعدہ کر کے آپی سے ۔آپی کے ہونٹوں پر ہر وقت مسکان رہتی اور آنکھوں میں خوشیوں کے دیئے جلا کرتے تھے۔
میں ان کی خوشیوں کی دعا مانگا کرتی تھی اور تھوڑے دنوں میں ہی علی بھائی نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا اورعلی بھائی کی فیملی ہمارے گھر آپی کا رشتہ لے کر آگئی ۔علی بھائی کی امی کو آپی بہت اچھی لگی۔
میری ماں کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا مگر ایک خوف تھا جو میری ماں کی آنکھوں میں ہلکورے لے رہا تھا۔مہرین آپی کی خوشے کا ٹھکانہ نہیں تھا ان کے چہرے پر حیا کی سرخی چھائی ہوئی تھی میرے تایا اورابو خاموش مہمانوں کے ساتھ بیٹھے تھے وہ لوگ چاہتے تھے۔ جلدی شادی کرنا کیوں کہ علی بھائی کی وہاں جاب تھی اور وہ ایک مہینے کا ٹائم لے کر آئے تھے ۔
تایا کے چلے جانے کے بعد ابو اور تایا نے آپی کو بلایا امی وہی موجود تھیں۔ تایا کا کہنا تھا کہ اس رشتے سے انکار کر دیا جائے ۔ تایا کی بات پر امی ابو کی جانب دیکھنے لگی مگر ابو بہت اطمینان سے بیٹھے تھے۔مگر مہرین آپی خود کو بولنے سے روک نہیں پائی اور انہوں نے اس رشتے سے انکار کی وجہ پوچھی ۔جس پر تایا کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں خاندان سے باہرشادی کو بُرا سمجھا جاتا ہے ۔
یہی ہماری روایت ہے اور اس روایت کی پاسداری کرنی ہے ۔ تمہاری بھی شادی ہم خاندان میں دیکھ کر کریں گے ۔
میں جو دروازے سے لگی یہ سب سن رہی تھی میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں بندوق لوں اور ساری گولیاں اپنے تایا کے سینے میں اتار دوں۔
آپی چپ چاپ کمرے سے نکل گئیں۔پوری رات آپی خاموش بستر پر لپٹی ہوئی چھت کی جانب دیکھے جا رہی تھیں مجھے ان کی خاموشی سے وحشت ہو رہی تھی۔
تھوڑے ہی دنوں میں ابو اور تایا نے آپی کی شادی اپنے دور کے رشتے دار سے بات کر کے طے کر دی تھی۔ میںاس لڑکے کو دیکھ کر صدمے میں آگئی تھی لڑکا کیا کہوں آدمی تھا ۔ آپی سے عمر میں بڑا۔سیاہ رنگت کا ۔بھاری جسامت کا آٹھویں جماعت پاس ا سدن مجھے اندازہ ہوگیا کہ واقعی ان کو بیٹیوں سے کتنی نفرت ہے ۔
٭…٭…٭
اس دن میری ماں ہم بہنوں کے کمرے میں آکر بلند آواز سے روئی تھی۔میری باقی بہنیں بھی اس زیادتی پر ذارو قطار روئی تھیں ۔
حالانکہ زیادتی کے معاملے میں بھی میرے باپ اور تایا نے کی تھی۔مگر آپی کے ساتھ تو حد سے زیادہ نا انصافی ہوگئی تھی۔ آپی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے ہمیں روتا ہوا دیکھتی رہیں۔
آخر رات میں آپی میرے تایا اور باپ کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوگئیں ۔جن کے مقابل کبھی میری ماں نے بھی سر نہیں اٹھایا تھا ۔انہوں نے کہہ دیا وہ ساری زندگی کنواری رہیں گی مگر اب شادی نہیں کریں گی۔
وہ ذاروقطار روتی ہوئی میرے باپ سے کہنے لگیں ۔تایا کا تو کوئی قصور نہیں کیوں کہ ان کو تو بولنے کا ہمارے معاملے میں آپ نے حق دیا ہے ۔
آپی کی اس بات سے تایا کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا اور انہوں نے چیخ کر آپی کو چپ کرانا چاہا مگر آپی پر جنوں طاری تھا ۔
”قصور ابو آپ کا ہے روز قیامت جب پوچھ گچھ ہوگی تو آپ سے ہوگی تو ہم بہنیں آپ کو نا انصافی پر کبھی معاف نہیں کرینگی۔”
”ابو کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ آپی کو ختم کر دیں۔ وہ بہت برداشت سے آپی کی باتیں سن رہے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے آچ کچھ بھی ہوجائے ان کی بیٹی چپ نہیں ہوگی۔
”جس گھرانے میں بیٹیوں کی پیدائش پر افسوس کیا جائے، بیٹی کو عذاب اور عورت کو حقیر سمجھا جائے ۔”
آپ کو تو یہ یاد بھی نہیںہے کہ کتنے تلخ الفاظ ہیں جو دن میں کئی بار ہم ماں بیٹیوں کے سینے میں اتارے ہیں۔آپ بلال کو پیار کرتے ہیں اسے اپنے پاس بٹھاتے ہیں۔
جو نظر آپ کی بلال کے لیے ہوتی ہے اور جو ہمارے لیے اس میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ اگر آپ کے لیے کچھ اہم ہے تو آپ کی جائیداد کا اکلوتا وارث بلال۔ ہمیں آپ کی ڈھیروں دولت سے کوئی سروکار نہیں۔ ابو ہمیں آپ کی محبت چاہیے تھی مگر ابو آپ تو ہمارے لیے بہت غریب ہیں آپ کے پاس تو محبت بھی نہیں ہے۔میں مر جاؤں گی پر اب شادی نہیں کروں گی۔آپی روتے ہوئے کمرے میں چلی گئی۔”
٭…٭…٭
ان کی باتوں کا پتہ نہیں میرے باپ پر اثر ہونا تھا یا نہیں مگر آج بھی انہیں اپنی بیٹیوں سے زیادہ اپنی جھوٹی روایتیں عزیز ہیں۔ ہمارا قصور کیا تھا؟ ہم بیٹیاں ہیں حوا کی بیٹیاں آخر اتنی بے بس کیوں ہیں؟
٭…٭…٭…٭

Leave a comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اردو ادب، شاعری اور نثر – سب ایک جگہ
آپ کے ذوق کی دنیا، بس ایک کلک کی دوری پر

Get The Latest Updates

Subscribe to our newsletter to get our newest articles instantly!

Copyright 2025 . All rights reserved Huroof powered by Arkanteck.