Poetry

لفظ، وزن اور شعر

Share
Share

موسیقی میں فنکار اگر پیش کش کے دوران سُر سے کہیں ہٹ بھی جائے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ ریاض میں کمی بیشی رہ گئی ہے۔ اکثر اس نوع کی کمی بیشی سے صرفِ نظر بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر فنکاربے تالا ہوجائے تو اسے محض بے آہنگی سے تعبیر نہیں کیا جاتا بلکہ موسیقی کے ماہر اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ فنکار فنِ موسیقی سے نابلد ہے۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی شاعر پست سے پست ترین مضمون کو وزن میں پیش کرے تو موضونیت کا وصف اسے کم از کم کلامِ موزون کا درجہ عطا کرتا ہے۔ ایسے شعر کی شعریت پر بحث کا مرحلہ بعد کا ہے۔ اس کے برعکس نادر سے نادر ترین مضمون کا متحمل بیان اگر موضونیت کے وصف سے عاری ہے تو اسے کوئی شعر ماننے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ شعر کے خارج الوزن ہونے کے دو اسباب ہیں۔ یا تو شاعر علمِ عروض سے نابلد ہے یا پھر وہ الفاظ کو صحیح استعمال کرنے کا طریقہ نہیں جانتا۔ شمس الرحمان فاروقی نے الفاظ اور فنِ عروض کے ناگزیر ربط کے بارے میں فرمایا ہے کہ: ’’ فنِ عروض کا دورومدار ہی الفاظ کے اوزان پر ہے۔‘‘ پس جو شاعر الفاظ کے اوزان کا علم نہ رکھتا ہو اس سے لازمی طور پر عروضی غلطیاں سرزد ہونگیں۔ الفاظ کے صحیح وزن پر استعمال نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ شاعر جس زبان میں شعر کہہ رہا ہے وہ اس کے لسانی نظام کی باریکیوں کا علم نہیں رکھتا۔

اس وقت اردو میں کئی الفاظ کے استعمال کے بارے میں اشکال پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کا وزن ’’فاع‘‘ ہے مگر اب یہ الفاظ عوامی بول چال میں ’’فعو‘‘ کے وزن پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ جیسے شہر، شمع، وضع، فرق وغیرہ۔ اگرچہ ایسے متعدد الفاظ کا تلفظ اب عوام میں ’’فعو‘‘ کے وزن پر ہی رائج ہے اور انہیں اسی وزن پر برتنے کی تجایز یا سفارشیں کی جاتی ہیں مگر اس نوع کے لسانی تصرفات کے لئے وقت ہی اپنا فیصلہ سناتا ہے۔ اور جب لسانی ڈھانچے میں تغیر پیدا ہوتا ہے تو لغت میں ایسے الفاظ کا اندراج لسانی تقاضوں کے تحت خودبخودہوجاتا ہے۔ محض یہ کہنے سے کہ ایسے الفاظ کو اس وزن میں بولنے اور شعر میں برتنے میں کوئی قباحت نہیں، بات نہیں بنتی۔ اس کے لئے لسانی ڈھانچے میں تصرفات کی ایک جامع کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔

شمس الرحمان فاروقی اپنی اہم تصنیف’’ عروض، آہنگ اور بیان‘‘ میں فرماتے ہیں کہ :’’ تیسری قسم ان الفاظ کی ہے جن کا صحیح تلفظ صرف شعر میں ہی مستعمل ہے(جیسے جمع، قطع، شہر وغیرہ )۔ یہاں میری سفارش ہے کہ شعر میں بھی ان کے مروج تلفظ (یعنی جمع، قطع، شہر سب بروزنِ خبر) کو جائز قرار دینا چاہیے۔ لیکن ان کو بروزنِ خبر باندھنے پر اصرار نہ کیا جائے۔‘‘

اسی طرح راقم کے ایک استفسار کے جواب میں فاروقی مرحوم یوں فرماتے ہیں:’’ لفظ( صفر) صحیح بسکونِ دوم بروزنِ فکر ہے۔ لیکن عام بول چال میں بتحریکِ دوم بروزنِ نڈر ہے۔ عام بول چال کی سند پر بفتحِ دوم چل جائے گا۔ میں تو بروزنِ فکر ہی لکھوں گا لیکن کوئی بروزنِ نڈر لکھے گا تو اعتراض نہ کرؤں گا۔ (واٹس اپ)

:اب آئیے ملاحظہ فرمایئے کہ رشید حسن خان ایسے الفاظ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں

جمع: اصلاً یہ لفظ بہ سکونِ دوم ہے۔ اس طرح استعمال میں بھی آتا ہے۔ ترکیبوں میں تو اسی طرح استعمال کیا جاتا ہے اور اسی طرح استعمال بھی کرنا چاہیے۔ البتہ گفتگو میں عام طور پر بہ فتحِ دوم آتا ہے۔

Leave a comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اردو ادب، شاعری اور نثر – سب ایک جگہ
آپ کے ذوق کی دنیا، بس ایک کلک کی دوری پر

Get The Latest Updates

Subscribe to our newsletter to get our newest articles instantly!

Copyright 2025 . All rights reserved Huroof powered by Arkanteck.