Interviews

Interview – Dr. Ali Arsalan

Share
Share

سوال: آج کل زندگی کیا کہہ رہی ہے؟
جواب: زندگی کہیں نظر ہی نہیں آتی تو کہے گی کیا؟ ہر طرف مشینیں چل رہی ہیں آدمی کی صورت میں۔ زندگی کامطلب تو رنگ و خوشبو ‘ طمانیت ‘ خوشی اورانسانیت ہے اور اب وہ ناپید ہوچکی ہے ۔ ہر چہر ے پرہوائیاں اڑ رہی ہیں۔
سوال:آپ اپنے کل پر جو گزر گیا’ کے بارے میں کچھ بتائیں۔
جواب: اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکرادا کرتا رہوں کم ہے ۔ میرا ” کل” بھی حسین ترین گذرا ”آج ”بھی خوبصورت ہے ۔ فرق اتنا ہے کہ ” کل” خود بخود حسین تھااور”آج” کو خوبصورت بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں اور کامیاب ہوں ربِّ کریم کی رحمت سے۔
سوال:حرف کی دنیاسے آپ کا رابطہ کب اور کیسے جڑا ۔اور اس سفر کا احوال کیا ہے؟
جواب: حرف کی دنیا سے میر ارابطہ بہت پرانا ہے ۔ ہوش سنبھالا تو والدین کوپڑھنے کا شوقین پایا ۔ اس وقت ڈائجسٹ کا زمانہ نہیں تھا صرف ادبی رسالے ‘ نقش’ نقوش’ جائزہ وغیرہ باقاعدگی سے والد مرحوم خرید کر لاتے تھے ان کے بعد میں بھی پڑھا کرتاتھا حالانکہ سمجھ میں کچھ نہیں آتاتھا ۔ میری والدہ کا بیشتر وقت اب بھی مطالعے میں گزرتا ہے ۔ اللہ میری ماں کی عمر دراز کرے ۔ جب ڈائجسٹ آنے شروع ہوئے تو میرے والد تمام پرچے لا کر پڑھا کر تے تھے اور ان کے ساتھ میں بھی۔ پڑھنے کا شو ق میں نے والدین سے پایاہے ۔ میڈیکل کالج میں داخل ہونے سے پہلے میں نے محلے کی لائبریریوں سے کرائے پرکتابیں لے کر پڑھ ڈالی تھیں۔ ہر قسم کی حتیٰ کہ کتابیں ختم ہوگئیں میراشوق ختم نہ ہوا اور اب بھی جاری ہے ۔ اب میں لکھتا ہوں یا پڑھتا ہوں اس کے بغیر نیند نہیں آتی۔ چھٹیوں میں میرا واحدمشغلہ یہی ہواکرتاتھا ۔ انٹر پاس کرنے سے قبل میں نے اردو ادب میں نثر کوخاصی حد تک پڑھ لیاتھا (جتنا بھی آس پاس کی لائبریریوں میں موجود تھا اور گھر میں بھی ) اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے اندر چھپاہوا افسانہ نگار ‘ ڈرامہ نگار اور شاعر بے قرار ہوتاچلاگیا اور آخر کار ابل کر پھٹ پڑا وقت آنے پر۔ پہلا افسانہ اٹھارہ سال کی عمر میں لکھا اور فوراً ہی ملک کے معرو ف پرچے میں شائع ہوگیا ۔ معاوضہ بھی ملا جو میری توقعات سے کہیں زیادہ تھا لہٰذا میرا حوصلہ اچھل اچھل کر آسمان کو چھونے لگا ۔ یہ 1976کی بات ہے ۔ اس کے بعد قلم کی رفتار بے حد بڑھ گئی ۔ 1976 سے1981 تک تقریباً 75 کہانیاں اور افسانے شائع ہوئے اور بہت سے ایوارڈ یافتہ بھی قرار پائے ۔ 1982 میں نیشنل اکیڈمی آف سوشل ایکٹوٹیز نے مجھے بہترین نثر نگار کے قابل جانا اور ایوارڈ سے نوازا ۔ اس کے بعد عملی زندگی شروع ہوئی اور قلم کاری ختم ۔
سوال: شاعری اور ڈرامے سے آپ کی آشنائی کب ہوئی؟
جواب: شاعری میںنے بچپن سے شروع کردی تھی ۔ میرے والد مرحوم مجھے ساتھ لے کر مشاعروں میں جاتے تھے اورواپسی پر میں اتنا متاثر ہوتا تھا کہ فوراً تُک بندی شروع کردیتاتھا ۔ سچ تو یہ ہے کہ شاعری کومیں نے کبھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی مگر آج کل جس قسم کی شاعری نظر آتی ہے میرا خیال ہے کہ میں اس سے کہیں بہتر شعر اپنے بچپن اور جوانی میں کہہ چکا ہوں (شعرا ٔسے معذرت کے ساتھ) ۔ اب بھی اگر آمد ہوجائے تو شعر کہنے سے گریز نہیں کرتا ‘ چاہے غزل ہو ‘چاہے نظم…
پہلاڈرامہ 1998 ء میں لکھا” گھر سلامت رہے ” 23مارچ کا اسپیشل ڈرامہ تھا جو پہلی بار ایس ٹی این(STN)پر ٹیلی کاسٹ ہوا۔ بہت پذیرائی ہوئی اور جرنلسٹ فورم نے ایوراڈ سے نوازا ۔ اس کے بعدسے 23 ڈرامہ سیریل اور SOLOڈرامے ٹیلی کاسٹ ہوچکے ہیں ” ابنِ آدم” سیریل کو ایشین ایوارڈ ملا ۔ سیریل ”راستہ دے زندگی ” اوراسپیشل ڈرامہ ”دستک” پی ٹی وی ایوارڈ کے لیے نامزد ہوا ۔ چوبیسواں ڈرامہ سیریل ”کرامتِ عشق ” بیس دسمبر سے ٹی وی ون چینل پردکھایاجائے گا ۔ان کے علاوہ بھی کچھ ڈرامہ سیریل زیر تکمیل ہیں ۔
سوال:کچھ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بتائیں۔
جواب: ذاتی زندگی میں کوئی خاص بات نہیں۔ ایک Low middle کلاس زندگی ہے ( اللہ کا شکر ہے)۔ رب کا بہت کرم ہے ۔ سارے کام خود بخود ہوجاتے ہیں ۔بیٹی حریم Orthdontics کی اسپیشلسٹ بننے والی ہے ۔ اس سے چھوٹا میرابیٹا سطام (Sattam) میکنیکل انجینئر ہے اور کینیڈا میں مقیم ہے۔ آئل اینڈ گیس کی فیلڈ میں ماسٹرز کر چکا ہے۔ سب سے چھوٹا حسّام این ای ڈی یونیورسٹی میں الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کررہاہے اورآدھا سفر طے کرچکاہے ۔ میں پروفیسر ہوں سینے کی بیماریوں کا ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہوں ۔ لیاقت نیشنل ہاسپٹل اینڈ میڈیکل کالج میں خدمات انجام دے رہا ہوں پچھلے پندرہ برس سے ۔ دن ہاسپٹل میں گزرتا ہے اور شام قلم یا کتاب کے ساتھ یہی ہے میری ذاتی زندگی ۔ کسی اور تجربے کا وقت ہی نہیں میرے پاس ۔
سوال: پسندیدہ کتابیں اور ادیب؟
جواب:ہراچھی کتاب میری پسندیدہ کتاب ہے چاہے کسی بھی موضوع پر ہو ۔ نثر میں کرشن چندر ‘ سعادت حسن منٹو’ احمد ندیم قاسمی سے بہت متاثرہو۔شاعری میں جوش ملیح آبادی ‘ احمد فراز ‘ فیض احمد فیض اور جو ن ایلیا میرے آئیڈیل ہیں۔
سوال: موسیقی اور محبت ان دونوں کے حوالے سے آپ کا دل کیا کہتا ہے؟
جواب: موسیقی اور محبت دونوں روح کو تازگی فراہم کرتے ہیں ۔ آسودگی مل جاتی ہے بشرطیکہ موسیقی کلاسیکل’ یا نیم کلاسیکل ہو پاپ میوزک صرف ہیجان برپا کرتی ہے جسم و جان میں سچ کہوں تو مہدی حسن اور میڈم نور جہاں کے بعد ہماری موسیقی کا باب بند ہوچکاہے ۔ جیسے شاعری میںفیض جوش اور فراز کے بعد جیسے نثر میں قاسمی صاحب اور انتظار حسین کے بعد کوئی نام تو بتائیں جو ان کا نعم البدل ہو کوئی نہیں ۔ کوئی نہیں۔ شاعری ختم۔ نثر ختم۔ موسیقی ختم۔
سوال: حالات حاضرہ سے دلچسپی ہے؟
جواب: حالات حاضرہ سے مجھے ذرا برابر بھی دلچسپی نہیں بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں بہتری کی امیددور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔
امیرِ شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلہ ٔمذہب’ کبھی بنامِ وطن
ہم سب لٹ رہے ہیں۔ لٹیروں کو کوئی نہیں پوچھتا جن کے چہرے وہی’ جن کے چہرے خراب نیت وہی۔چہرے بدل بدل کر آجاتے ہیں عوام کا خون چوسنے کو ۔ قائد اعظم کے بعد سے یہی حالات حاضر ہ ہیں۔
سوال:کون سے عوامی اور سماجی مسائل اور رویے آپ کے لیے دکھ کا باعث ہیں؟
جواب: بے دردی’ بے رحمی’ بد تہذیبی ‘ خود غرضی’ سنگدلی اور غیر انسانی رویہ۔تہذیب ‘ مروّت ‘ ہمدردی اور خوش اخلاقی ‘ مکمل طور پر رخصت ہوچکے ہیں ہماری سوسائٹی سے۔ ہر سمت غنڈہ گردی کا راج ہے۔آپ دیکھ لیں تیس سال پہلے کراچی شہر کا کیا ماحول تھا اور اب کیا ہے؟ جنگل بن گیا ہے یہ خوبصورت شہر بلکہ جنگل سے کہیں زیادہ بد تر ۔ نہ کوئی قانون ‘ نہ کوئی طریقہ’ جو خاندان یہاں پر تہذیب و تمدّن کے علمبردار تھے ‘ وہ مایوس ہو کر بیرون ملک بسیرا کرچکے ہیں ۔وجہ؟ مایوسی ‘ محض مایوسی۔ انہیں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی اور ہجرت جاری ہے کوئی شریف خاندان اس ملک میں نہیں رہنا چاہتا ۔ مجبوری کی بات الگ ۔ یہاں شرافت بے قدر اور بے وقعت ہے۔ تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں معاشرہ بد معاشوں سے خوفزدہ رہتا ہے جن کے پاس دولت اور طاقت ہے۔
سوال: موجودہ وقت میں میڈیا کا کردار کیساہے؟
جواب: میڈیا کے کردار پر کچھ کہنا فضول ہے ہر چینل ‘ ہر اخبار اپنی ریٹنگ بڑھانے کی خاطر وہ کچھ کررہا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہیے ۔ میڈیا کوئی بھی ہو پرنٹ یا الیکٹرونک انہیں معاشرے کو سدھارنے میں ‘ اس کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے میںمثبت کردار ادا کرنا چاہیے مگر یہاں تو سنسنی پھیلانے پر زور ہے ۔ گنے کی ٹرالی کا ایکسیڈنٹ اتنے زور و شور سے بیان کیا جاتا ہے گویا دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے بیرون ملک اس قسم کی خبریں نہ اخباروں میں آتی ہیں نہ ٹی وی پر ۔ کنٹرول لازم ہے ۔ میڈیا کی آزادی کا مطلب یہ نہیں جو ہمارے ملک میںسمجھا جاتا ہے دنیا بھر کے ممالک سے ہمیں موازنہ کرنا چاہیے کہ وہ عوا م کو کیا دکھاتے ہیں اور کیا چھپاتے ہیں ۔ یہاں تو بس…نہ کوئی حد ‘ نہ کوئی حساب ۔ جس کا جو دل چاہ رہا ہے وہ کہہ رہا اور کررہا ہے۔
سوال: آج اور کل کے ٹی وی ڈرامے میں کیا فرق ہے؟
جواب:پہلے ڈرامہ فن تھا’ اب کاروبار ہے’ پہلے آرٹسٹک تھا ‘ اب کمرشل ہے۔ فرق صاف ظاہر ہے۔
ڈرامہ کسی بھی قسم کا ہو’ ٹی وی ڈرامہ یا اسٹیج پلے منظوم ہو یا نثر میں ‘ دیکھا جائے یا پڑھا جائے ۔ میں ڈرامے کو فنون لطیفہ کی ایک قسم سمجھتاہوں کوئی سمجھے یا نہ سمجھے اس سے مجھ کو کوئی غرض نہیں… فنون لطیفہ کی تمام اصناف زوال پذیرہیں’ نظم ہو یا نثر ناول ہو یا ڈرامہ سب کے سب تنزلی کا شکار ہیں جیسے ہمارا معاشرہ ہماری تہذیب و تمدّن انحطاط میں مبتلا ہوچکے ہیں اور دن بہ دن تنزلی میںشدت آتی جا ر ہی ہے ۔ بہتری کی امید مجھے مستقبل میںدکھائی نہیں دے رہی ۔ بے ڈھنگا پن ‘ بدتمیزی ‘جہالت غنڈہ گردی اور شدت پسند مزاج ہوچکا ہے ہماری قوم کا بلکہ سچ پوچھیں تو ہم ایک قوم نہیں بھان متی کا کنبہ ہیں اس قسم کے ماحول میں ادبی اصناف کبھی نہیں پنپ سکتیں۔ آپ خود تجزیہ کریں۔ احمد فراز صاحب کے بعد ہمارے پاس لینے کوکوئی نام نہیں شاعری میں۔ افسانہ احمد ندیم قاسمی صاحب کے ساتھ ہی دفن ہوگیا موسیقی ملکہ ترنم نور جہاں ‘ استاد مہدی حسن خان صاحب نصرت علی خان صاحب اور استاد امانت علی خان صاحب کے ساتھ ساتھ رخصت ہوگئی کوئی ایسا نام بتادیں جو مندرجہ بالا کا نعم البدل تو کیا عشر عشیر بھی ہوں کوئی نہیں’ کوئی نہیں۔ یہی حال ڈرامہ انڈسٹری کا ہے ‘ جی ہاںاب ٹی وی ڈرامہ کاروبار کی شکل اختیار کرچکا اور کاروبار ‘ تخلیق کاروی کے ساتھ کبھی میل ہیں کھاسکا ۔ اچھی تخلیق اچھے ماحول میں ہوتی ہے ادیبوں اور شاعروںپر ماحول اثر انداز ہوتا ہے۔ بہتر ماحول ‘ بہتر تخلیق ۔ بد تر ماحول بد تر تخلیق بے شمارڈرامے ٹیلی کاسٹ ہورہے ہیں بے حساب ٹی چینلز ہیں لیکن آپ کا ہاتھ ٹی وی ریموٹ پرکبھی کبھی اورکہیں کہیں ہی رکتا ہے ورنہ آپ چینل بدل دیتے ہیں کیونکہ… ایک ہی کہانی’ ایک ہی موضوع’ بے ہودگی ‘ بد تمیزی اور بے حیائی کوغالباً کامیابی کی کنجی سمجھ لیاگیا ہے چنانچہ دوڑ جاری ہے… پرنٹ میڈیا ہویا الیکٹرانک ‘ میں پرانے زمانے کا آدمی ہوں اور میرے خیالات بھی غالباً اس افراتفری کے دور میں پرانے ہوچکے ہیں … میرے نزدیک میڈیا کی بہت اہم ذمہ داری ہے ۔ میں معاشرے کو سدھارنے اور بگاڑنے میںمیڈیا کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا … لیکن یہاں تو ریٹنگ’ر یٹنگ اور صرف ریٹنگ … اور ریٹنگ کی حقیقت بھی وہ نہیں جو بتائی جاتی ہے۔ کروڑوں کی آبادی میں چند گنے چنے لوگوں کی رائے لے کر اپنے مطابق کے مطابق ریٹنگ کردی جاتی ہے ۔میری رائے میں میڈیا کا کردارعوام کو مثبت راہ پر چلانا ہے نہ کہ انہیں افراتفری اور ذہنی کوفت میں مبتلا کرنااورنہ ہی وہ کچھ دکھانا جو معیوب ‘قابل اعتراض اور غیر اخلاقی ہے۔ میڈیاوہ نشتر ہے جواگر کسی ماہرسرجن کے ہاتھ میں ہوتو جان بچالیتا ہے اور اگر کسی نادان کے ہاتھ میں ہوتو وہ جان لے لیتاہے۔
سوال: فلموں سے دلچسپی ہے اور کون سی فلمیں پسند ہیں؟
جواب:فلموں سے بہت زیادہ دلچسپی ہے ۔ میں نے ڈرامہ اسکرپٹ لکھنا ہی فلم اسکرپٹ پڑھ کر سیکھاتھاجو میرے چچا علی سفیان آفاقی صاحب (مرحوم) کاتھا۔ میری خواہش ہے کہ میں کسی اچھی فلم کا اسکرپٹ بھی لکھوںمگر … آج کل جو فلمیں کامیاب ہورہی ہیں ان میںپھکڑ پن اور بلاوجہ کی بے ہودگی اور لچر پن Vulgarity نمایاں نظر آتی ہے۔مجھ سے یہ نہیں ہوسکا کہ لہذا معذرت کرلی کئی فلم سازوں سے میرامزاج’ میری طبیعت گوارا نہیںکرتی کہ میںاس قسم کی فلم کا اسکرپٹ لکھوں جسے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے سے شرمندگی ہو اور میری بیٹی طنزا سوال کرے کہ”بابا! یہ آپ نے لکھا ہے؟” ڈرامہ ہو یافلم’ میری ناقص رائے میں کوئی نہ کوئی اچھا اور مثبت پیغام یا سبق واضح نظرآتاہے۔مجھ سے گھریلو سازشیں’ ساس نند’ بہو کی لڑائیاں اور ناجائز تعلقات کی تفصیل نہیں لکھی جاتی نہ میرا دل مانتا ہے نہ میرا ضمیر۔
سوال: پاکستان کے علاوہ دنیا دیکھی ؟کیا تجربہ ہوا؟
جواب: الحمد للہ کافی سیرسپاٹے کرچکاہوں اپنے میڈیکل پروفیشن کی وجہ سے کانفرنسیز اور ایجوکشینل میٹنگز کے سلسلے میں جب موقع ملتاہے خود کواپ ڈیٹ کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ سعودی عرب میں تقریباً تین سال مقیم رہاملازمت کے دوران(فوج میں جوانی گزاری ہے۔کرنل ریٹائر ہوا ۔ میں نے خود ہی قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی)۔ اعلیٰ تعلیم و تربیت کی غرض سے برمنگھم میں رہا اور اس کے بعد مصر ‘ فلپائن ‘ تھائی لینڈ’ چین’ ہالینڈ’ اسپین’ فرانس’ سوئٹزر لینڈ’ سنگا پور اوراٹلی کے دورے کرچکا ہوں… تجربے کا مت پوچھیں جہاں بھی گیا کرب اور شرمندگی میں مبتلا ہوا … یہ احساس مارے ڈالتا تھا کہ ہم لوگ اتنے منظم’ مہذب اور انسان دوست کیوں نہیں ہوسکتے؟ پاکستان میں بے انتہا ٹیلنٹ ہے مگر درست راہ کا اشارہ نہیں ملتا ۔ راستہ کون دکھائے’ راہبر ‘ راہزن بن چکے ہیں۔ میری نظر میں تعلیم صرف ڈگری حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ معاشرے کی ترقی اور خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا نام ہے۔ تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے اس کے بعدتعلیمی ادارے اور اساتذہ اہم کردار ادا کرتے ہیں شخصیت کی تعمیر میں مگر دکھ یہ ہے کہ ”الف”سے”ے” تک ہر شخص اپنے فرض کو بوجھ سمجھ کر ٹالنے کے انداز میں ادا کررہاہے’ دلچسپی اوردیانت سے نہیں۔ پیسہ کمانے کا جنون بھوت بن کر چمٹ گیا ہے’ خود غرضی اور بے حسی رگ رگ میں شامل ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ رشتوںمیں خلوص رہا نہ معاشرتی برتائو میں… جہاں بھی گیا یہی دیکھا کہ وہاں کے لو گ مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا ‘ لیکن ہماری سوسائٹی میں جان بوجھ کر قدم قدم پر مشکلات پیداکی جاتی ہیں اور مسئلے کو سلجھانے کے بجائے زیادہ سے زیادہ الجھایاجاتا ہے۔ عوام جو بھی سیکھتے ہیں خواص سے سیکھتے ہیں۔ کرپشن اور بددیانتی ہمیشہ اوپر سے شروع ہوتی ہے اورپھر نیچے تک تیرتی چلی جاتی ہے ۔ ہم کیا سیکھ رہے ہیں اپنی نام نہاد ”اشرافیہ” سے ؟ بے ایمانی’ بد دیانتی’ لالچ’ دھونس ‘ دھاندلی’ عیّاشی ‘ غنڈہ گردی ‘ بے رحمی ‘ سنگدلی ‘ خود غرضی اور لاقانونیت میں عوام کو ذرّہ برابر دوش نہیں دوںگا ۔ ان کے مزاج میں خود بخود وہ سماجاتا ہے جو وہ دیکھتے ہیں اور بھگتتے ہیں۔
سوال: پسندہ موسم ‘خوشبو’ رنگ اور لوگ؟
جواب: پسندیدہ موسم سردی اوربہار۔ ہر اچھی خوشبو پسند یدہ خوشبو ( بچپن سے شوق ہے) مہنگی یا ہوسستی بس میری ناک کو بھاجائے۔ پسندیدہ رنگ گہرا نیلا ‘ سفید اور میرون ۔ پسندیدہ لوگ جومنافق نہ ہوں ۔ جھوٹے نہ ہوں اور جمالیاتی حس رکھتے ہوں جن سے گفتگو میں لطف آئے اور سرشاری محسوس ہو۔
سوال : اور کوئی خاص بات جو آپ کہنا چاہتے ہوں؟
جواب: خودکو آسودہ اور مطمئن رکھنے کا صرف ایک ذریعہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے قرب اور اس کے فیصلوں پراندھا اعتماد(Blind faith)مشکلات حل ہوتی چلی جاتی ہیں(میری اپنی مثال سامنے ہے) شکوہ شکایت کبھی نہیں ۔عبادت صرف عبادت ۔شکر صرف شکر ۔ البتہ کوشش فرض کردی گئی ہے۔انسان پر ۔ کوشش جاری رہے اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے بھی مایوسی نہیں ہوسکتی۔
سوال: اپنے پڑھنے والوں کے لیے کوئی بات؟
جواب: جہاں تک بھی میرا پیغام پہنچے یہ کہنا چاہوں گا کہ کتاب سے رابطہ نہ توڑیں پڑھنے کی عادت ترک نہ کریں۔ مطالعے کا نعم البدل نہ انٹر نیٹ ہے نہ واٹس ایپ ۔ ذہن اورروح کی بالیدگی اور شخصیت کی پرورش ‘ خیالات کی کشادگی ‘ تہذیب و تمدن سے آگاہی اور ذہن کی پرورش اورافکار میں وسعت ۔اچھا ادب’ اچھی کتابیں پڑھنے ‘ مہذب Intellectualsاور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں (صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ) کی محفل میں ان کی گفتگو سننے سے حاصل ہوتی ہے (اپنا تجربہ بیان کررہا ہوں) ۔ اگر موقع ملے تو ہاتھ سے مت جانے دیں۔
سوال: دوشیزہ سے تعلق کتنا پرانا ہے
جواب: دوشیزہ سے تعلق بہت پرانا بھی ہے اوربہت مضبوط بھی۔ میرا افسانہ مضراب مئی 1978 میں شائع ہواتھا اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور جاری ہے ۔ انشاء اللہ جاری رہے گا تاحیاتِ اور تاحیاتِ قلم۔ غیرحاضری کا سبب پیشہ ورانہ مصروفیات ہی بنتی رہی ہیں اور ممکن ہے آئندہ بھی بنتی رہیں۔
فکر معاش کھاگئی ‘ دل کی ہر اک امنگ کو
جائیں تو لے کے جائیں کیا حسن کی بارگاہ میں
٭٭…٭٭

Leave a comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Articles
اردو ادب، شاعری اور نثر – سب ایک جگہ
آپ کے ذوق کی دنیا، بس ایک کلک کی دوری پر

Get The Latest Updates

Subscribe to our newsletter to get our newest articles instantly!

Copyright 2025 . All rights reserved Huroof powered by Arkanteck.