Recipes

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

Share
Share

اور جی چاہتاکہ سلسلہ کلام ختم نہ ہو۔کلاس کے علاوہ شعبہ میں ہر وقت ان کی محفل آباد رہتی۔طلبہ کو سال کے شروع میں یہ سخت ہدایت تھی کہ کلاس کا وقت ہوتے ہی آجائیں،یہ عذر کبھی نہ پیش کیا جائے کہ میرے پاس کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔شمیم صاحب کے جو بھی ملاقاتی ہوتے انھیں یہ معلوم تھا کہ کلاس کا وقت ہوتے ہی یہ محفل برخاست ہوجائے گی۔اس اصول سے چند ساعتوں سے انحراف کی گنجائش اس وقت پیدا ہوتی جب کوئی مہمان دلی سے باہر کا ہوتا۔ ان کی محفلوں کی غیر رسمی گفتگو کے ہزار موضوعات تھے۔ ان کے ملنے والوں کا دائرہ صرف اردو تک محدود نہیں تھا بلکہ ہندی،انگریزی کے علاوہ موسیقی،آرٹ اور دیگر فنون کے وابستگان سے بھی ان کے گہرے مراسم تھے۔غالباً اسی لیے ان کی گفتگو کے حوالے متنوع اور پہلودار ہوتے تھے۔وہ میر وغالب،اقبال اور فیض پر جس طرح گفتگو پر قادر تھے اسی طرح ٹیگور،کبیر اور سور داس پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ہندی کی ادبی روایت،اردو کی تہذیبی وراثت اور کیا کچھ نہیں تھا جس کا ذکر ان محفلوں میں ہوتا رہتا تھا۔غالباًایک بار منٹو کی زبان پر گفتگو کررہے تھے کہ بات گورکی اور چے خف تک پہنچ گئی۔اسی موقع پر’اداس نسلیں‘کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بھی گالیاں ہیں مگر اس نوع کی زبان کے سلسلے میں نام منٹو کا لیا جاتاہے۔وہ یہیں پر نہیں رکے بلکہ ہندی کے معروف ادیب نامور سنگھ کا نام لے کر ان کے بھائی کاشی ناتھ کا تعارف بھی کرایا کہ انھو ں نے گالیوں پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اورپھراپنی تمام تر وضع داری کے باوجود یہ کہنے میں تامل سے کام نہیں لیا کہ ”کسی بھی زبان کی تخلیقی طاقت کا سب سے بڑا اظہار اس زبان کی گالیاں ہوتی ہیں“۔

انھو ں نے کہا کہ زبان کے وجود کی بقاکی جنگ اور خوف کی نفسیات کے ساتھ اردو والوں نے آزادی کے بعد سے اب تک کا طویل سفر طے کیا ہے۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ایسے عالم میں زبان کا تحفظ ہوجائے یہی بہت بڑاکام ہوگا چہ جائیکہ ہم اپنے ادب میں کوئی نیا تجربہ کریں۔ویسے بھی رسم الخط کو لے کر جس طرح کے اندیشے تھے اس نے بھی قربت کے اس زاویے پرایک انجانے خوف کا پہرہ بٹھا رکھا ہے۔یہ جواب ایسا برمحل اور بے تکلف تھا کہ پورے مجمع پر اک عجب سی لہر دوڑ گئی۔یہ جواب اس لیے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ جواب دینے والا اس حلقے کے لیے انتہائی متعارف تھا اور اس محفل میں دیگر زبانوں کے ادب اور فنون سے وابستہ لوگوں کی ایک قابل لحاظ تعداد موجود تھی،جو شمیم حنفی کے جواب میں پنہاں کرب سے کماحقہ واقف تھی۔

کس قدر پیاری زباں اور کتنی دکھیاری زباں

جشن ریختہ 2015میں ایک سیشن اردو ہندی زبانوں سے متعلق قربتیں اور فاصلے کے عنوان سے تھا، جس میں شمیم حنفی صاحب کے ساتھ گفتگو کرنے کے لیے ہندی کے مشہور ادیب پروفیسر اشوک واجپئی موجود تھے۔بی بی سی کے پرویز عالم اس سیشن کے منصرم تھے۔دونوں شخصیات کے انداز بیان اوردلچسپ طرز اظہار نے پورے ہال میں ایک بصیرت آمیزمسرت کی کیفیت پیدا کررکھی تھی۔شمیم حنفی نے کہا تھاکہ ”قربتیں تاریخ نے دی ہیں جبکہ فاصلے سیاست کی پیدا وارہیں“۔ قربتوں سے جب گفتگو کا رخ فاصلوں کی طرف چلا تو کہی اور ان کہی کی صو رت میں بھی دونوں بزرگوں نے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔شمیم حنفی باوجود یکہ اردو اور ہندی کے ادیبوں سے بے حد قریب تھے اور اپنی وضع داری کے سبب بھی دونوں حلقو ں میں ایک خاص شناخت رکھتے تھے، ان سے اشوک واجپئی نے بڑا معنی خیز سوال کیا کہ ہندی والوں نے تو اردو سے اپنی دوری کم کرلی ہے کیونکہ انھوں نے تراجم کی شکل میں اردوکے بڑے سرمایے کو ہندی میں منتقل کرلیا ہے مگر اردو نے ہندی سے اپنی دوری شاید کچھ بڑھا لی ہے۔شمیم صاحب تمام تر تہذیبی شرافت کے باوجود یہ کہنے کے لیے خود کو روک نہیں پائے کہ گذشتہ ستر برسوں کے دوران اردو کو جن آزمائشوں سے گذرنا پڑا ہے اس کا اندازہ آل آحمد سرور کے اس مصرعے سے ہوتا ہے ؎

Leave a comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اردو ادب، شاعری اور نثر – سب ایک جگہ
آپ کے ذوق کی دنیا، بس ایک کلک کی دوری پر

Get The Latest Updates

Subscribe to our newsletter to get our newest articles instantly!

Copyright 2025 . All rights reserved Huroof powered by Arkanteck.