Afsanay

Jeewan Ag Ka Darya – جیون آگ کا دریا

Share
Share

آج دو سال بعد زینت کا فون آیا تھا لندن سے! آواز سے بہت پُرسکون اور مطمئن لگتی تھی۔ پھر بھی میں نے پوچھا۔
”کیسی ہو زینت؟ خوش تو ہونا؟”
”ہاں میں اب بہت پرسکون ہوں، یہیں کے اسپتال میں نرس کے فرائض انجام دے رہی ہوں۔ پتا ہے نورین! لوگوں کی خدمت کرکے بہت سکون ملتا ہے۔ تکلیف سے تڑپتے بلکتے لوگوں کو جب میں دوا دیتی ہوں ان کو آرام پہنچاتی ہوں تو وہ مجھے ڈھیروں دعائیں دیتے ہیں۔ شاید اُن ہی دعائوں کا نتیجہ ہے کہ میری زندگی میں بھی ٹھہرائو آرہا ہے، مجھے سکون راس آرہا ہے ورنہ تو میں بالکل نا اُمید ہوچکی تھی کہ شاید میری زندگی سے ساری خوشیاں روٹھ چکی ہیں، لیکن اب دوسرے لوگوں کی تکلیف دور کرکے انہیں آرام پہنچا کے مجھے جو حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے اُسے میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی۔” وہ کافی حد تک پُرسکون لگ رہی تھی۔ مجھے بہت خوشی ہوئی، میں نے اُسے صدقِ دل سے دعا دی۔
”خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے، تمہاری زندگی میں دُکھ کا شائبہ تک نہ ہو۔” جواب میں اُس نے ”آمین” کہا پھر پوچھنے لگی۔
”اچھا یہ تو بتائو کہ شادی کا کب تک ارادہ ہے کوئی منگنی ونگنی ہوئی کہ نہیں؟”
”ارے ہاں بابا! میری منگنی ابھی کچھ مہینوں پہلے ہی ہوئی ہے اور عنقریب شادی ہونے والی ہے۔”
”واہ واہ! سارے کام چپکے چپکے ہوگئے اور ہمیں خبر تک نہ ہونے دی۔ ایسی ہوتی ہے دوست؟”
وہ چہک رہی تھی، میری شادی کا سن کر اس کی پرانی شوخی عود آئی تھی۔ میرے دل سے دعا نکلی۔
”کاش وہ ایسے ہی ہنستی کھلکھلاتی رہے، آمین۔”
”ارے نہیں زینت میں تمہیں بتانا چاہتی تھی، لیکن تمہارا ایڈریس بھی تو نہیں تھا میرے پاس، سوچو میں تمہیں کیسے بتاتی؟” میں روانی میں کہہ گئی۔
”اب تم بتائو کہ تم کب شادی کررہی ہو؟ ملا کوئی؟” میں کہتی چلی گئی پھر مجھے احساس ہوا کہ میں نے اُس کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا وہ فوراً ہی رنجیدہ ہوگئی اور کھوئے کھوئے لہجے میں بولی۔
”نوراین اب یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ میں زندگی بھر شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرچکی ہوں کیوں کہ مجھے مرد ذات سے نفرت ہے نفرت!” وہ حقارت اور دُکھ سے بول رہی تھی۔
”لیکن زینت سارے مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔” میں نے اُسے صفائی دی۔
”مجھے جو ملے وہ تو سب ایک جیسے تھے۔” وہ بے ساختہ بولی اور مجھے لاجواب کردیا۔ میں خاموش رہ گئی۔ کچھ نہ بول سکی بولتی بھی کیا؟ اس کی زندگی تو میرے سامنے کھلی کتاب کی مانند تھی۔
”اپنا خیال رکھنا، اللہ حافظ۔” اس نے کہا اور لائن منقطع ہوگئی اور میں ماضی کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے لگی۔
٭…٭
زینت ہمارے محلے میں رہا کرتی تھی اور چار بھائیوں کی اکلوتی اور لاڈلی بہن تھی گو کہ زینت ایک عیسائی فیملی سے تعلق رکھتی تھی، لیکن ہمارے گھر اس کا بہت آنا جانا تھا۔ دراصل وہ میری چھوٹی بہن کی کلاس فیلو بھی تھی اور اچھی دوست بھی، اسی لیے ہمارے گھر اس کا بہت آنا جانا تھا۔ اس کے گھر والوں کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا کیوں کہ ہمارے گھر کا ماحول بہت اچھا تھا اور ویسے بھی دن میں بھائی اور ابو تو گھر میں ہوتے نہیں تھے۔ صرف ہم دونوں بہنیں اور امّی ہی ہوتی تھیں۔ اس لیے زینت بے فکری سے آجاتی تھی۔
زینت فطری طور پر ایک بھولی اور معصوم لڑکی تھی۔ وہ آٹھویں کلاس میں کیا آئی کہ دوسری لڑکیوں کی دیکھا دیکھی اُسے بھی موبائل فون کا شوق ہوا اور پھر اُس نے اپنے بھائیوں سے موبائل فون والی ضد منوالی اور فون لے کر ہی دم لیا۔ بس پھر کیا تھا نیا شوق تھا وہ پڑھائی وڑھائی بھول کر ہر وقت موبائل پر لگی رہتی۔ کبھی گیم کھیل رہی ہوتی، تو کبھی فالتو کے ایس ایم ایس میں مشغول رہتی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ آٹھویں میں بُری طرح فیل ہوگئی اور اس کو گھر والوں سے بُری طرح ڈانٹ پڑی۔ وہ پریشان پریشان میرے پاس چلی آئی میں نے اُسے بہت سمجھایا کہ ”اپنی پڑھائی پر مکمل توجہ دو، موبائل تو ساری زندگی استعمال کرسکی ہو مگر یہ وقت اگر تمہاری مٹھی سے پھسل گیا تو پھر ہاتھ نہیں آئے گا اور تم بہت پچھتائو گی۔”
”ہاں ٹھیک کہہ رہی آپ میں اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ دوں گی لیکن مجھے تمہارے تعاون کی ضرورت ہے۔” اس نے کہا۔
”میں ہر تعاون کے لیے تیار ہوں۔” میں نے کھلے دل سے کہا۔
”دراصل مجھے روزانہ ٹیوشن کی ضرورت ہے اور میرے گھر والے سوائے گھر کے مجھے اور کہیں جانے کی اجازت نہیں دیں گے اور یہ معلوم ہی ہے کہ میرے دماغ میں بھوسا بھرا ہوا ہے۔ سیدھی طرح کوئی بات سمجھ میں آتی ہی نہیں ہے۔ میں پڑھوں تو کیسے پڑھوں؟” وہ پریشان تھی۔
”ارے بھئی! میں نے کہا نا تم میرے لیے شائستہ جیسی ہو۔ (شائستہ میری چھوٹی بہن ہے) جیسے میں اسے گائیڈ کرتی ہوں، ایسے تمہیں بھی کردیا کروں گی۔ بس اب تم یہ فالتو چکر چھوڑ کر اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔”
میں نے اُسے پڑھائی کی طرف مائل کیا اور حوصلہ دیا میں ان دنوں میٹرک میں تھی۔ وہ میری ہم عمر ہی تھی اس لیے میرا نام لیتی تھی اور بے تکلف بھی تھی، لیکن میں پھر بھی بڑے پن کا رعب جمایا کرتی تھی اور اکثر شائستہ اور زینت کو زمانے کی اونچ نیچ اور اچھائی بُرائی سمجھاتی رہتی تھی اور پھر اس نے روزانہ ہمارے گھر پڑھنے آنا شروع کردیا۔ میں پوری دلجمعی سے اُسے پڑھاتی ہر ہر بات سمجھاتی اور پھر جب میرے بورڈ کے امتحانات نزدیک آئے، تو میں نے اُسے پڑھائی کی تاکید کرتے ہوئے ٹیوشن آنے سے منع کردیا۔ بس یہیں سے اس کی تباہی کا دور شروع ہوا۔ اگر مجھے معلوم ہوتاکہ وہ اندھی راہوں کی مسافر بن جائے گی، تو میں کبھی ایسا نہ کرتی۔ کسی بھی طرح وقت نکال کر اُسے پڑھاتی، لیکن اگر انسان آنے والے حالات سے باخبر ہوجائے حفاطتی اقدامات نہ کرلے۔
زینت کند ذہن تو تھی ہی اب اُسے کوئی پڑھانے والا نہ رہا، تو اُسے دن میں تارے نظر آنے لگے۔ اس نے اپنی اس پریشانی کا ذکر جب اپنی امی سے کیا اور کہا کہ وہ کوچنگ سینٹر جانا چاہتی ہے، تو پہلے تو اس کی امی نے صاف انکار کردیا کہ”جیسا بھی ہے گھر میں پڑھو کوچنگ سینٹر کا ماحول اچھا نہیں ہوتا۔” لیکن زینت بھی بڑی چالاک تھی اس نے کہا۔
”نہیں امّی میری اک سہیلی بھی جاتی ہے۔ میں اُسی کے ساتھ جائوں گی اور آئوں گی۔ پلیز مجھے اجازت دے دیجیے۔” اور پھر اس کی امی نے ہزاروں نصیحتوں کے بعد اسے اجازت دے دی اور زینت اپنی سہیلی کے ساتھ کوچنگ جانے لگی۔ کچھ دنوں تک زینت کی امی بھی ساتھ چھوڑنے جانے لگیں، لیکن جب انہیں سب ٹھیک لگا تو انہوں نے جانا چھوڑدیا۔
زینت کو اسی طرح کی آزادی پہلی مرتبہ ملی تھی لہٰذا ہر چیز میں اسے نیا پن اور خوب صورت نظر آنے لگی۔ وہ ایک خوب صورت لڑکی تھی لہٰذا کوچنگ میں آنے والے لڑکے بھی اس کی طرف متوجہ ہونے لگے اور کچی عمر کی اس لڑکی کو بھی ان کی التفاتی نظریں اچھی لگنے لگیں۔ ان ہی میں سے ایک لڑکے نے کوچنگ سے چھٹی پر اس کے ہاتھ میں اک رقعہ تھمایا اور جلدی سے نکلتا چلا گیا۔ زینت حیران تھی۔ بہر حال اس نے اپنی سہیلی کو بتایا۔ سہیلی صاحبہ خود کسی لڑکے کے عشق میں گرفتار تھیں۔ لہٰذا اس سہیلی نے اُسے بڑھاوا دیا اور اپنے گھر لے گئی۔ وہاں سہیلی کے کمرے میں بیٹھ کر ان دونوں نے وہ خط پڑھا، لکھا تھا۔
”زینت! جب سے تمہیں دیکھا ہے میں تو دیوانہ ہوگیا ہوں۔ ہر دم بس تمہارا ہی چہرہ نگاہوں میں رہتا ہے۔ تم سے بہت دن سے بات کرنا چاہ رہا تھا، لیکن ڈرتا تھا کہ تم بُرا نہ مان جائو۔ اگر میرا ساتھ قبول ہے تو اس نمبر پر کال دے دینا اور اس کے نیچے موبائل نمبر لکھا تھا، میں سمجھ جائوں گا۔
زینت کے ہاتھ پائوں لرز رہے تھے جبکہ زینت کی سہیلی پُرانی اور پکی کھلاڑی تھی۔ وہ خوش ہورہی تھی کہ چلو اب ان راستوں پر وہ اکیلی نہیں بلکہ زینت بھی اُس کے ساتھ ہے۔
”نہ بابا میں تو اُسے صاف منع کردوں گی۔” اگر ہمارے گھر میں کسی کو بھنک بھی پڑگئی، تو مجھے جان سے مار ڈالیں گے۔” زینت نے کہا۔
”ارے پگلی! کیسے پتا چلے گا کسی کو؟ تیرا کمرہ تو الگ ہے نا! بس تو رات کو اپنے کمرے میں جلدی چلی جانا اور فون ریسیو کرلینا اور اس لڑکے کو سمجھا دینا کہ وہ کبھی بے وقت فون نہ کرے، بس بات ختم۔” سہیلی نے اسے سبق پڑھاتے ہوئے کہا۔
”لیکن پھر بھی…!” زینت بُری طرح گھبرارہی تھی۔
”ارے تو ایک مرتبہ ان راستوں پر چل کے تو دیکھ، مزا نہ آجائے تو کہنا۔” وہ بدتمیزی سے آنکھ مارتے ہوئے بولی۔
”ابھی تھوڑے دنوں میں تیرا دیوانہ تجھ پہ قیمتی تحائف کی برسات کردے گا۔ پھر تیرے موبائل میں بیلنس لوڈ بھی وہ خود کروائے گا اور تیرے عیش ہی عیش ہوں گے۔” یہ اور نجانے کیا کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرکے اس نے زینت کا دماغ خراب کردیا اور پھر زینت دھیرے دھیرے ان اندھی راہوں کی مسافر بنتی چلی گئی۔
زینت شاید نہیں جانتی تھی کہ ان راستوں کے مسافر کو کبھی منزل نہیں ملتی بلکہ ان خاردار راہوں میں اُلجھ کر اپنا وجود چھلنی کر بیٹھتے ہیں اور آخر میں تہی داماں رہ جاتے ہیں اور ان کے ہاتھ سوائے ذلت و رسوائی اور تنہائی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
کاش زینت سمجھ پاتی، لیکن وہ تو چپ چاپ اپنی سہیلی کے اوٹ پٹانگ مشوروں پر عمل کرتی چلی گئی اور سب کچھ لُٹا بیٹھی اور پھر آہستہ آہستہ اس لڑکے نے زینت سے کترانا شروع کردیا۔ زینت پریشان رہنے لگی ابھی وہ اس سلسلے میں کچھ بات کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ وہ لڑکا ایک دم منظر سے ہی غائب ہوگیا۔ زینت کا تو جیسے لہو کسی نے نچوڑ لیا۔ سارا سارا دن بولائی بولائی پھرتی۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ یہ سب ہوا کیا؟ وہ تو اُسے سب کچھ مان بیٹھی تھی۔ اپنا سب کچھ اس لڑکے پر نثار کر بیٹھی تھی اور اب جب زینت کے لیے واپسی کا کوئی دَر نہ بچا، تو وہ اسے بیچ منجدھار میں چھوڑ کر اُڑن چھو ہوگیا تھا۔
اب زینت کا کہیں دل نہ لگتا تھا۔ نہ کوچنگ میں، نہ گھر میں۔ پڑھائی سے بھی جی اُچاٹ ہوگیا، لیکن زینت کی نام نہاد سہیلی نے تو گویا قسم کھارکھی تھی زینت کو بربادی و تباہی کے دہانے پر پہنچانے کی، سو وہ اس نے پوری کردکھائی اور زینت کی کوچنگ سے ایک ہفتہ غیر حاضری کے باعث وہ اس سے ملنے اس کے گھر تک آپہنچی۔ زینت اس وقت اپنے کمرے میں اپنی بربادی اور اس لڑکے کی بے وفائی کا ماتم کررہی تھی۔ عجیب حال بنا رکھا تھا۔
”ارے یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے اپنا؟ تم تو بالکل غائب ہی ہوگئیں، کہاں ہو بھئی؟”
”وہ آتے ہی شروع ہوگئی۔ زینت سنبھل کر بیٹھتے ہوئے بولی۔
”کہیں نہیں بس گھر میں ہی تھی۔ دل نہیں چاہ رہا تھا کوچنگ جانے کا سو نہیں گئی، تم سنائو کیسی ہو؟”
”میں ٹھیک ہوں، ایک دم فٹ فاٹ تم بتائو تم کس بات کا سوگ منارہی ہو کہ دنیا سے ہی کٹ گئیں۔”
”کچھ نہیں یار بس کہیں دِل نہیں لگ رہا ہے۔” یہ کہتے کہتے زینت دھواں دھار رونے لگی۔
”ارے ارے کیوں رو رہی ہو؟ کچھ بتائو تو سہی۔” شازیہ اس کے آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔
”کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟ یا… یا شعیب سے جھگڑا ہوگیا ہے؟”
بس شعیب کا نام سننا تھا کہ زینت اور بھی زور و شور سے رونے لگی اور شازیہ بن کہے ہی سب سمجھ گئی کہ ڈرامے کا ڈراپ سین ہوچکا ہے۔ لہٰذا اطمینان سے بولی۔
”اوہ! اب سمجھی تم شعیب کی وجہ سے پریشان ہو نا؟ چلو مجھے بتائو کہ ہوا کیا ہے؟” اور زینت نے آہوں سسکیوں کے درمیان اُسے ساری روداد من و عن سنادی۔ جسے سُن کر اول تو شازیہ نے سر تھام لیا۔ پھر ہوا میں اُڑاتے ہوئے بولی۔
”بس اتنی سی بات؟ اور تم ہو کہ رو رو کر ہلکان ہوئی جارہی ہو۔”
”مطلب؟” زینت کو دھچکا لگا۔ ”تمہارے نزدیک یہ اتنی سی بات ہے؟”
”ہاں اور نہیں تو کیا۔” پھر قدرے توقف سے بولی۔
”دیکھو زینت یہ جو لڑکے ہوتے ہیں ناں یہ صرف ٹائم پاس کرتے ہیں اور وقت نکل جانے پر یہ پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے اور محترمہ آپ کو کس نے کہا تھا کہ سنجیدہ ہوجائو تم بھی صرف ٹائم پاس کرتیں نا!”
زینت حیرت سے شازیہ کی شکل تکنے لگی۔ اُس کا تو یہ پہلا پہلا تجربہ تھا جو بہت تلخ ثابت ہوا تھا۔ زینت تو واقعی شعیب کے ساتھ سیریس ہوچکی تھی اور اسی کو سب کچھ مان بیٹھی تھی اور شعیب نے بھی تو شادی کرکے زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا۔ پھر کیا ہوئے اُس کے وعدے؟ کیا ہوئیں وہ قسمیں، وہ محبت کے بلند و بانگ دعوے سب جھاگ کی طرح بیٹھ چکے تھے اور زینت اس غم کو دل سے لگائے زندگی بھر کا روگ بنا بیٹھی تھی اور… اور شازیہ کے نزدیک یہ معمولی بات تھی صرف اور صرف ٹائم پاس۔
”شازیہ تم یہ کس قسم کی باتیں کررہی ہو؟ شعیب نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ میرے اعتبار کا خون کیا ہے، مجھے سہانے سپنے دکھا کر ان کو چکنا چور کردیا ہے۔ میرے ساتھ بڑے بڑے وعدے کیے، ساتھ نبھانے کی قسمیں کھائیں اور جب میں مکمل بھروسہ و اعتماد کرکے اس کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے لگی، تو وہ مجھے بیچ منجدھار میں چھوڑ کر بھاگ گیا اور تم ان سب باتوں کو ٹائم پاس کہہ کر اُڑارہی ہو؟”
”ارے بابا میں مانتی ہوں کہ تمہارے ساتھ غلط ہوا۔ تمہارے ارمانوں کو خون ہوا، تمہارے خواب چکنا چور ہوئے، تو پھر اب کیا کیا جائے؟ کیا جینا چھوڑدیا جائے؟ اور زندگی بھر اس ایک غم کے ماتم میں ساری خوشیوں کو پسِ پشت ڈال دیا جائے؟” شازیہ سوالیہ نظروں سے زینت کو دیکھ رہی تھی اور زینت ٹکر ٹکر شازیہ کی شکل تک رہی تھی۔ شازیہ نے لوہا گرم دیکھ کر چوٹ لگائی۔
”بولو جواب دو۔ کیا تم اب ہمیشہ کے لیے اس کمرے میں قید ہوکر رہ جائو گی؟ اپنی زندگی سے، اپنی خوشیوں سے، اپنے رشتے ناتوں سے منہ موڑلوگی؟نہیں زینت یہ ناممکن ہے۔ تمہیں جینا ہے، تعلیم بھی حاصل کرنی ہے اور ہاں شعیب جیسے لڑکوں کو منہ توڑ جواب بھی دینا ہے۔”
”وہ کیسے؟” زینت ابھی تک حیران تھی۔
”ارے بھئی! سمپل ہے جس کی طرح تمہیں شعیب نے ورغلایا تم سے محبت کی پینگیں بڑھائیں اور پھر جب تم اس کی محبت میں پور پور ڈوب گئیں، تو وہ تمہیں روتا بلکتا چھوڑ کر دوسری لڑکیوں کو بے وقوف بنانے نکل پڑا اور یہاں تم بیٹھی اس کا سوگ منارہی ہو۔”
”تم یہ کہنا چاہ رہی ہو کہ میں بھی شعیب کی طرح محبت سے کھلواڑ کروں؟ کسی کی آنکھوں میں خواب سجاکر انہیں چکنا چور کروں، نہیں شازیہ جھ سے یہ سب نہیں ہوگا۔ پھر مجھ میں اور شعیب میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔”
”تو ختم کرو ناں اس فرق کو! وہ اگر انسان ہے، تو تم بھی فرشتہ نہیں ہو۔ وہ اگر بے وفائی کرے اور دھوکا دے تو ہم قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیں، لیکن یہ ہی بدلہ ہم اتاریں۔
تو کیا یہ دھوکا دہی اور بے وفائی میں شمار ہوگا؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ میں تو اس ہاتھ دو اور اُس ہاتھ لو کی قائل ہوں۔ بھئی ہم غلط کیا کررہے ہیں؟ بلکہ جو دنیا ہمیں دے رہی ہے ہم وہی اُسے لٹا رہے ہیں۔ بتائو ذرا اس میں غلط کیا ہے۔ میں تو کہتی ہوں اگر سکون حاصل کرنا چاہتی ہو تو اپنا انتقام لو۔”
”انتقام مگر کس سے؟ شعیب سے؟”
”ہاں اگر شعیب مل جائے تو شعیب سے بھی اور اگر نہیں ملتا تو اس جیسے تمام لڑکوں سے جو معصوم اور بھولی بھالی لڑکیوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ آزماکر دیکھو تمہیں تسکین نہ ملے تو کہنا۔” شازیہ دعوے سے بولی اور وہ قائل ہوگئی۔
زینت نے سوچا کہ میرا کیا قصور تھا؟ مجھے کس بات کی سزا ملی؟ میں نے تو صرف شعیب سے محبت کی تھی۔ اس کا ساتھ چاہا تھا، اس کی سنگت کے خواب دیکھے تھے اور شعیب نے میرے خوابوں کے تاج محل کو اپنی بے وفائی کے پتھر سے ایک ہی دفعہ میں چکنا چور کردیا تھا۔
”ہاں تم ٹھیک کہتی ہو شازیہ” زینت جیسے خواب میں بول رہی تھی۔
”میں بدلہ لوں گی شعیب سے۔ اس جیسے تمام سڑکوں سے میں بدلہ لوں گی۔” زینت کے لہجے میں چٹانوں سی سختی تھی۔ شازیہ نے حیران ہوکر زینت کو دیکھا اس کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا تھا۔ وہ بہت خوش تھی کیوں کہ وہ زینت کو اپنے رنگ میں ڈھال رہی تھی۔
”پھر کل سے کوچنگ چل رہی ہو نا؟”
”ہاں” زینت کے اس ایک ہاں میں شازیہ کے ہر سوال کا جواب تھا۔
”اچھا! اب میں چلتی ہوں کل ملتے ہیں۔ اپنا خیال رکھنا اوکے۔” اور ہاتھ ہلاتی ہوئی چلی گئی۔ زینت کے لیے سوچوں کے نئے در وا ہوتے چلے گئے۔
زینت نے دوسرے دن سے کوچنگ سینٹر جانا شروع کردیا، لیکن پہلے کی طرح زینت نے اپنی طرف بڑھتے قدموں کو دھتکارا نہیں بلکہ بہت خاموشی سے مختلف لڑکوں میں اپنے نمبر تقسیم کردیئے اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ جن لڑکوں کے پاس زینت کے نمبر تھے وہ آپس میں دوست تو نہیں! اور پھر رفتہ رفتہ زینت پڑھائی سے دور اور ان لڑکوں کے قریب ہوتی چلی گئی۔ وہ ہر لڑکے کو انفرادی توجہ دیتی اور اس سے اس طرح اظہارِ محبت کرتی جیسے وہ صرف اُسی لڑکے سے محبت کرتی ہے۔ وہ لڑکے اسے قیمتی گفٹس دیتے، تو اس کی روح تک سرشار ہوجاتی۔ وہ ہر بات شازیہ سے ڈسکس کرتی اور شازیہ اسے اور حوصلہ دیتی اور بڑھاوا دیتی، نتیجتاً زینت بگڑتی چلی گئی۔ آخر ایک دن اس ڈرامے کا ڈراپ سین بھی ہوگیا۔
ہوا یوں کہ زینت کسی ریسٹورنٹ میں ایک لڑکے سے ملنے گئی۔ اتفاق سے اُس کے بھائی بھی وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے جو زینت کو ایک غیر لڑکے کے ساتھ دیکھا، تو غصّے سے لال پیلے ہوگئے اور زینت کو چوٹی سے پکڑ کر ایک دو ہاتھ تو وہیں جڑدیے اور گھر لاکر تو اسے لاتوں اور گھونسوں پر رکھ لیا کافی دیر پٹنے کے بعد جب زینت بے ہوش ہوگئی تو اسے کمرے میں بند کردیا اور ماں جو کب سے چلا رہی تھی۔
”کیا ہوا ہے ؟کیوں مار رہے ہو زینت کو؟” ساری رام کہانی سن کر ماں سر تھام کر بیٹھ گئیں۔ پھر بھائی کے گھر سے جانے کے بعد انہوں نے بھی خوب خبر لی زینت کی اور اس کے باہر نکلنے پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔
٭…٭
میں اپنے امتحان سے فارغ ہوچکی تھی، اس لیے بوریت محسوس کررہی تھی۔ پھر کافی عرصہ سے زینت بھی ہمارے گھر نہیں آئی تھی، میں نے سوچا کہ شاید وہ میری پڑھائی کا خیال کرکے نہیں آئی، خیر میں خود ہی امی سے اجازت لے کر زینت سے ملنے چل پڑی۔
”السلام علیکم! آنٹی کیسی ہیں آپ؟” میں نے زینت کی امّی کو سلام کیا مجھے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئیں۔
”وعلیکم السلام! بیٹا تم کیسی ہو؟ بڑے دنوں بعد چکر لگایا۔” وہ محبت سے بولیں۔
”بس آنٹی امتحانات ہورہے تھے اسی میں مصروف تھی اور یہ زینت کہاں غائب ہے؟ اتنے دنوں سے ہمارے گھر بھی نہیں آئی اور کہاں تو اس کی روٹی ہضم نہیں ہوتی تھی ہمارے گھر آئے بغیر… کہاں ہے یہ؟ میں خود اس سے پوچھتی ہوں۔” میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے بولی۔
زینت کا ذکر آتے ہی آنٹی بجھ سی گئیں اور بولیں۔
”پڑی ہے اپنے کمرے میں کم بخت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہمیں رُسوا کرنے میں۔” یہ کہہ کر آنٹی اپنا منہ دوپٹے میں چھپا کے رونے لگیں۔ میں سمجھ گئی کہ ہو نہ ہو کوئی غیر معمولی بات ہوئی ہے ورنہ زینت تو اپنے گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ اکلوتی جو تھی، سب اسے پلکوں پر بٹھاتے تھے، لیکن اب ایسا کیا ہوا تھا کہ اس کی ماں ہی اسے کم بخت کہہ رہی تھی زینت نے ضرور کچھ بُرا کیا ہے۔
”آنٹی پلیز روئیں مت اور اگر مجھے اپنی بیٹی سمجھتی ہیں، تو پوری بات بتائیں۔” میں آنٹی کے آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔
”ارے کیا بتائوں؟ بیٹی! اس زینت نے تو میری ناک کٹوادی ہے۔ جب تک تمہارے ساتھ رہی ٹھیک رہی۔ کوچنگ سینٹر جانا شروع کیا تو نجانے کون کون سی نئی دوستیاں پال لی ہیں جنہوں نے اس سے اچھے بُرے کی تمیز ہی چھین لی ہے۔” پھر ذرا توقف کے بعد آنٹی نے من و عن کہانی مجھے کہہ سنائی پھر روتے ہوئے بولیں۔ ”اس سے تو اچھا یہ پیدا ہوتے ہی مرجاتی۔ آج یہ دن تو نہ دیکھنا پڑتا۔” آنٹی پھر سے رو رہی تھیں، میں انہیں تسلّی دینے لگی۔ میرا دماغ گھوم گیا تھا۔
”یہ… یہ زینت کو کیا ہوگیا ہے۔ زینت ایسی تو نہیں تھی۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ انسان کی پہچان اس کے دوستوں سے ہوتی اور زینت نے انجانے میں ایسی دوستیاں کرلیں جو اسے اندھے کنوئیں میں دھکا دے رہے تھے۔ مجھے ہر صورت زینت کو بچانا تھا اور پھر میں ایک عزم سے اُٹھی۔
”آنٹی آپ پریشان مت ہوں۔ میں سمجھاتی ہوں زینت کو، انشاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔” میں زینت کے کمرے کی طرف چل پڑی۔
زینت اپنے کمرے میں لیٹی خلائوں میں نجانے کیا ڈھونڈ رہی تھی۔ اسے میرے آنے کی خبر تک نہ ہوئی، عجیب حلیہ ہورہا تھا۔ اس کے بکھرے بال، ملگجے کپڑے، ویران آنکھیں اور زرد چہرہ! یہ زینت تو نہیں تھی، یہ تو۔ یہ تو کوئی اور ہی لڑکی تھی۔ زینت تو بہت زندہ دل لڑکی کا نام تھا۔
”زینت” میں نے دھیرے سے اسے پکارا اس نے چونک کر نظریں اٹھائیں اور پھر مجھے سامنے دیکھ کر جیسے وہ اپنے حواس میں لوٹ آئی اور ایک دم مجھ سے لپٹ کر رونے لگی۔ میں اس اچانک افتاد سے پریشان ہوگئی۔
”زینت کیا ہوا ہے؟” لیکن وہ مسلسل روتی رہی۔ میں سمجھ رہی تھی کہ اس کی دلی کیفیت اس وقت کیا تھی۔ میں نے سوچا اسے رونے دیا جائے۔ رونے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ بالآخر جب وہ خوب رو چکی اور کچھ بتانے کے قابل ہوئی، تو میں نے اس سے پوچھا۔
”اب بتائو کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہو؟ کھل کے بات کرو مجھ سے کچھ بھی مت چھپانا۔” میں پیار سے بولی۔
میں نے اس پر کچھ بھی ظاہر نہیں کیا تھا حالاں کہ میں اس وقت آنٹی کی زبانی ساری باتیں سن کر بہت غصّے میں تھی، لیکن میں کچھ کہہ کر اسے بدظن کرنا نہیں چاہتی تھی۔ سب اس کے منہ سے سننا چاہتی تھی تاکہ حقیقت سے آگاہی ہوسکے۔
تھوڑا وقت خاموشی کی نذر ہوگیا۔ وہ شاید ہمت مجتمع کررہی تھی بالآخر وہ بولی۔
”نورین تم تو جانتی ہو میں کس کردار کی لڑکی تھی۔ ہمیشہ لڑکوں سے دور بھاگنے والی ہیں نے کبھی بھی لڑکوں میں دِل چسپی نہیں لی ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھا لیکن پھر!” یہ کہہ کہ وہ پھر رونے لگی۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اسے پانی پلایا وہ ھپر سے شروع ہوگئی۔ ”لیکن جب سے تم سے الگ ہوئی اور کوچنگ سینٹر جانا شروع کیا۔ مجھے وہاں نئی نئی دوستیں ملیں۔ جنہوں نے مجھے نجانے کون سی راہوں کا مسافر بنادیا اور نورین میں… میں ایسی بے وقوف تھی کہ میں چل پڑی وہ مجھے جو جو راستہ دکھاتی گئیں میں اندھا دھند چلتی رہی۔” وہ کھو سی گئی۔ ”اس راستے میں مجھے سوائے بدنامی، رسوائی اور ٹھوکروں کے کچھ نہیں ملا۔ یہاں تک کہ میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی مجھے کیا ملا؟ نورین کچھ نہیں اور اب… اب تو میں گھر والوں کی نظروں میں بھی گرچکی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی میں نے اسے گلے لگایا۔
میری آنکھیں بھی بھیگ چکی تھیں۔ پھر وہ ایک ایک بات مجھے شروع سے آخر تک بتاتی چلی گئی کہ کس طرح اس نے شعیب سے دھوکا کھانے کے بعد لڑکوں سے دوستیاں کیں، میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کہاں سے بات شروع کروں کیا کہوں؟”
زینت شرمندہ شرمندہ سی بیٹھی تھی۔ اس نے جو کچھ کیا تھا غلط کیا تھا اور اب وہ بہر حال شرمندہ تھی اور میرے خیال سے اُس کی نصیحت کے لیے یہ ہی بہت تھا۔
”زینت! اِس وقت میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جس سے تمہارے دُکھ کا مداوا ہوسکے۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گی کہ جو تم نے کیا وہ صحیح تھا بلکہ تم نے بہت غلط راستے کا انتخاب کیا۔ اگر تمہیں شعیب نے دھوکا دیا تھا، تو کیا تم پوری دنیا کے مردوں سے بدلے لوگی؟ اور تمہاری نظر میں کیا یہ سب ٹھیک تھا؟ کیا مل گیا تمہیں یہ سب کرکے سوائے بدنامی اور رُسوائی کے…؟ ایک بار مجھ سے بات تو کی ہوتی مجھے اپنی پریشانی سے آگاہی تو دیتیں تاکہ میں تمہارے لیے صحیح راستے کی نشاندہی کرتی اور مجھے بھی چھوڑو کم از کم اپنی امی سے ہی حالِ دل کہہ کر دیکھتیں وہ تمہاری ماں ہیں اور میرے خیال سے ماں سے بہتر سہیلی اور رازدار کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ مگر تمہاری تو عقل پر پتھر ہی پڑگئے تھے۔ اپنی مشکل کہی بھی تو کس سے جس نے تمہیں سیدھا کنوئیں میں ہی دھکیل دیا…! تم نے ایک لمحے کو بھی نہیں سوچا کہ ایسے غلیظ مشورے دینے والی تمہاری دوست اور تمہاری مخلص کیسے ہوسکتی ہے؟” میں کہتی چلی گئی۔
میں دیکھ رہی تھی میری کہی ہر بات اس کے دل میں اُتر رہی تھی۔ میں اس کے چہرے سے اس کے تاثرات پڑھ سکتی تھی، وہاں سوائے دُکھ اور شرمندگی کے کچھ اور نہیں دکھائی دیا۔ مجھے اپنی بات جاری رکھنے کا حوصلہ ملا میں نے پھر سے کہنا شروع کیا۔ ”دیکھو زینت ایک لڑکی کی عزت کانچ سے بھی زیادہ نازک ہوتی ہے۔ اُسے بہت سنبھال کر دنیا کی میلی نظروں سے بچا کر رکھا جاتا ہے۔ ہماری ایک ذرا سی غلطی، ذرا سی کوتاہی سے یہ کرچی کرچی ہوجاتی ہے۔ دنیا کی ہر نعمت ہم دوبارہ حاصل کرسکتی ہیں، لیکن یہ جو عزت ہوتی ہے نا! یہ ہی اصل ہماری دولت اور کل اثاثہ ہوتی ہے جو ایک بار چلی جائے تو پھر ہاتھ نہیں آتی۔ مجھے حیرت ہے تم ان سب باتوں کو کیسے فراموش کر بیٹھیں؟
دیکھو! زینت تم ایک عزت دار فیملی سے تعلق رکھتی ہو اور گھر والوں کی عزت اس گھر کی بیٹی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ چاہے تو اس عزت کو اپنے سر کا تاج بنالے، چاہے تو اُسے اپنے قدموں میں روند دے میرے خیال سے تمہارے لیے یہ ہی نصیحت کافی ہے۔ اگر تم نے میری اس بات کو گرہ سے باندھ لیا تو مجھے یقین ہے کہ تمہارے قدم کبھی نہیں بہکیں گے۔” میں اتنا کہہ کر خاموش ہوکر اس کا منہ تکنے لگی۔ اس نے سر جھکا کر میری ساری نصیحت سنی تھی۔ اب پتا نہیں کتنی باتوں نے اس کے دل و دماغ پر اثر کیا تھا اور کتنی اس کے سر کے اوپر سے گزر گئی تھیں۔ بہر حال میں نے اسے سمجھا کر حجت تمام کردی تھی اور اپنا فرض نبھادیا تھا۔ اب عمل کرنا نہ کرنا اس کے ہاتھ میں تھا، عمل کرنے میں سراسر اُسی کا فائدہ تھا اور نہ کرنے میں خسارہ… اور میرے خیال میں خسارہ تو وہ پہلے بھی بہت اُٹھا چکی تھی۔
”نہیں نورین میں اب سمجھ چکی ہوں۔”
میں اپنی وجہ سے اپنے گھر والوں کا سر شرمندگی سے جھکنے نہیں دوں گی، اب ٹھوکر کھانے کے بعد مجھے عقل آگئی ہے۔ تمہارا بہت بہت شکریہ کہ تم نے میری دِل جوئی کی اور مجھے سمجھایا۔ مجھے تمہاری جیسی دوست کی ضرورت تھی۔” وہ آنکھوں میں آنسو بھر کے تشکر بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی۔
”ارے پاگل! میں تمہاری دوست ہوں” مجھے شکریہ مت کہو میں نے اپنا فرض پورا کیا۔ اب تمہیں اچھے بُرے کی تمیز آگئی ہے۔ میرے لیے یہ بہت خوشی کی بات ہے بس اب اپنا پڑھائی کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کرو اور خوب محنت کرو خدا تمہیں کامیاب کرے۔”
میں نے صدقِ دل سے اسے دعا دی، تو جواب میں اس نے آمین کہا۔
میں نے گھڑی دیکھی بہت ٹائم ہوگیا تھا مجھے گھر سے نکلے ہوئے۔ امّی پریشان ہورہی ہوں گی۔ یہ سوچ کر میں اُٹھ کھڑی ہوئی، اس سے اجازت چاہی اور دوبارہ آنے کا کہہ کر لوٹ آئی۔
میرے کہنے پر عمل کرتے ہوئے زینت نے پڑھائی شروع کردی۔ میں نے اس کی کافی ہیلپ کی بہر حال اس نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کرلیا۔ اس دن وہ بہت خوش تھی میرے گھر مٹھائی لے کر آئی تھی۔ اچھی اچھی باتوں کے درمیان ہم نے چائے پی۔
٭…٭
کچھ اس دوران زینت کا ایک اچھی جگہ سے رشتہ آیا۔ تھوڑی بہت چھان بین کے بعد رشتہ منظور کرلیا گیا، لیکن باقاعدہ منگنی کی رسم ادا نہیں کی گئی۔ گھر والوں کی مرضی میں زینت نے بھی اچھی لڑکیوں کی طرح سر جھکادیا اور اس رشتے کو دل سے قبول کرلیا۔
پھر اپنے ہونے والے منگیتر سے زینت کی فون پر بھی گفتگو ہونے لگی۔ جس کا ذکر زینت اکثر میرے سامنے بھی کرتی تھی شروع میں، میں نے اسے منع کرنا چاہا، لیکن پھر زینت کے منہ سے اس کی بے تحاشہ تعریف سن کر میں بھی مطمئن ہوگئی اور اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگئی۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک تھا، لیکن اصل میں کچھ بھی ٹھیک نہیں تھا۔
٭…٭
میں کچن میں کھانا پکارہی تھی، تب ہی کوئی کچن میں آیا اور میری آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔ میں سمجھ گئی کہ اس وقت سوائے زینت کے کوئی اور یہ حرکت نہیں کرسکتا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”زینت!” اس نے کھلکھلاتے ہوئے ہاتھ ہٹالیے۔
”واہ بھئی! فوراً پہچان لیا۔”
”دیکھ لو محبت ہے میری۔” میں نے کہا۔
”ہاں واقعی!” پھر ہچکچاتے ہوئے بولی۔
”تمہیں پتا ہے نوید (منگیتر) بھی مجھ سے بہت محبت کرتا ہے۔ روزانہ جب تک مجھ سے بات نہ کرے اس کا دل نہیں لگتا۔”
”اور تم؟” میں نے بے ساختہ پوچھا، تو وہ قدرے شرما کر بولی۔
”ہاں میں بھی اسے بہت چاہنے لگی ہوں، تھوڑے ہی دنوں میں لگتا ہے جیسے برسوں کی واقفیت ہے۔ یہ محبت کتنی انمول شے ہوتی ہے نا؟ کتنی قیمتی متاعِ جاں سے بھی زیادہ…” وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بول رہی تھی اور میں حیرت سے اسے تک رہی تھی۔ میں نے اس کی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرایا۔
”او میڈم کہاں کھوگئیں؟” تو وہ چونک کر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
دن یوں ہی پر لگا کر اُڑتے رہے اور اس بات کو دو ماہ گزر گئے۔ زینت اب موبائل کے علاوہ نیٹ پر بھی چیٹنگ کرنے لگی تھی، وہ ان دنوں بہت خوش دکھائی دیتی تھی۔ اور دل کی خوشی اس کے چہرے کو گلنار کر ررہی تھی۔ وہ دن بدن خوب صورت ہوتی جارہی تھی۔ اس کو خوش دیکھ کر ہم سب بھی بہت خوس تھے، لیکن اس کی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ زینت کا منگیتر نوید دراصل زینت سے محبت کا ڈرامہ رچاکر اپنے عزیز دوست کا بدلہ لے رہا تھا۔ جسے زینت نے اپنے دام محبت میں پھنسا کر تڑپنے کے لیے چھوڑدیا تھا۔ وہ بے چارہ شاید شریف انسان تھا جو چپ ہوکر بیٹھ گیا، لیکن اس کے دوست نوید نے اپنے دوست کی حالت دیکھ کر زینت سے بدلہ لینے کی ٹھانی اور اس کے لیے فول پروف پلان تیار کیا۔ جس پر عمل کرتے ہوئے پہلے تو نوید نے زینت کے گھر رشتہ بھیجا اور فی الحال منگنی سے انکار کردیا اور زینت سے راہ و رسم بڑھا کر اس کا اعتماد جیت لیا۔
نوید کے گھر والے نوید کے پلان سے بے خبر تھے اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ منگنی سے کیوں انکاری ہے، لیکن نوید نے بہت سوچ سمجھ کر پلان تیار کیا تھا۔ کسی کو اس بارے میں کچھ خبر نہ تھی۔ وہ زینت کو ایک بگڑی ہوئی لڑکی سمجھتا تھا اور اسے سبق سکھانا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے ایک ماہر شکاری کی طرح زینت کے گرد جال پھیلانا شروع کیا جبکہ زینت اب اپنی پرانی غلطیوں پر نادم تھی اور توہمت کرکے نئی زندگی شروع کرچکی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
زینت اور نوید کے ساتھ کو تین ماہ ہوچکے تھے۔ اس عرصے میں زینت نوید پر آنکھیں بند کرکے یقین و اعتماد کرنے لگی تھی اور اس کی محبت میں پور پور ڈوب چکی تھی۔ نوید کے نزدیک اب وہ وقت آگیا تھا۔ جب وہ زینت سے سارے حساب بے باق کرلیتا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ اس نے زینت کو مکمل اعتماد میں لے کر فرمائش کی کہ وہ اپنی اچھی سی تصویر بھیجے۔ زینت بھولی تھی اُسے نوید کی محبت سمجھی اور اپنی تصویر بھیج دی۔ فوراً ہی نوید کا جواب آیا۔
”واہ زینت! خوش کردیا اب دیکھنا نیٹ پر تم اپنی تصویر… دیکھ کر خود حیران رہ جائو گی۔” زینت حیران و پریشان ہوگئی۔
”کیا مطلب؟”
جواب آیا۔ ”مطلب تو اب سارے تمہاری سمجھ میں آجائیں گے۔ خدا حافظ۔” اس کے بعد نوید کا کوئی جواب نہیں آیا۔ زینت کے دل میں عجیب عجیب وسوسے سر اٹھارہے تھے۔ اس نے یہ کہہ کر خود کو تسلّی دی کہ شاید نوید مذاق کررہا ہوگا۔ کل خود آن لائن ہوجائے گا۔” بڑی مشکل سے وہ دن گزرا دوسرے دن بڑے انتظار کے بعد نوید آن لائن ہوا۔ آتے ہی لکھا۔
”اپنی تصویر دیکھنا چاہو گی؟” زینت نے ”ہاں ضرور۔” لکھا اور پھر جو تصویر زینت کے سامنے آئی اسے دیکھ کر زینت کے ہوش اُڑ گئے۔
”یہ کیا بے ہودگی ہے؟” زینت نے غصّے سے سوال کیا۔
”بے ہودگی؟ میں نے کیا بے ہودگی کی ہے؟ بے ہودگی تم پھیلارہی ہو مس زینت! آج بہت سے لوگ تمہاری تصویر نیٹ پر دیکھ رہے ہوں گے اورمیرے دل کو ٹھنڈک مل رہی ہے۔ ہا ہا ہا۔”
یہ پڑھ کر زینت کا خون کھول اُٹھا اس نے لکھا ۔
”تم کتنے بے غیرت منگیتر ہو۔ اپنی منگیتر کی تصویر اس طرح سب میں پھیلارہے ہو، تمہیں شرم نہیں آتی؟” زینت اب بُری طرح رونے لگی۔
”شرم کیسی؟ میری جان! یہ میرا انتقام تھا۔ انتقام اور ہاں میں نے تم سے کوئی منگنی نہیں کی ہے۔ دراصل میرا تمہارا کوئی رشتہ ہی نہیں ہے۔ اب میرے انتقام کو انجوائے کرو۔” یہ کہہ کر وہ غائب ہوگیا۔
زینت کا دماغ مائوف ہوچکا تھا، اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوگیا۔ اس نے ہمت کرکے نوید کا نمبر ملایا تاکہ اُس سے اس انتقام کی وجہ پوچھ سکے۔ خلافِ توقع نوید نے فون ریسیو کرلیا۔
”ہاں بولو۔” جواب میں زینت پھٹ پڑی۔
”تم نے آخر مجھ سے کس چیز کا انتقام لیا ہے؟ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ فقط محبت ہی کی ہے تم سے۔” زینت ہچکیوں سے رو رہی تھی۔
”محبت!” وہ سخت لہجے میں بولا۔ ” ارے تم کیا جانو کہ محبت کیا ہوتی ہے۔ میرے دوست شکیل سے بھی تو تم محبت کرتی تھیں۔ یاد کرو کیا کیا تم نے اس کے ساتھ… جانتی ہو تم نے تو اسے چھوڑدیا، لیکن وہ پاگل دیوانہ ہوگیا ہے۔ دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ اس نے کیا بگاڑا تھا تمہارا؟ اس نے بھی فقط محبت ہی کی تھی تم سے اور بدلے میں تم نے اسے کیا دیا۔ دھوکا۔”
زینت کو اب سب یاد آرہا تھا۔ سارے پردے ہٹتے چلے گئے تھے اور وہ ایک بار پھر اپنی ہی نظروں میں گر چکی تھی۔ نوید مسلسل بول رہا تھا۔
”تو مس زینت! آپ کو سبق سکھانے کا اس سے اچھا طریقہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میرا انتقام پورا ہوچکا ہے، اب ہمارے راستے جُدا جُدا ہیں۔” یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا اور زینت کی تو جیسے دنیا ہی اندھیر ہوگئی۔
زینت اپنی ہی نظروں میں گر چکی تھی، اُس نے ان سوچوں سے راہِ فرار اس طرح اختیار کی کہ نیند کی گولیاں بڑی تعداد میں کھالیں۔ لیکن بروقت طبی امداد سے اسے بچالیا گیا۔ گھر والے اس کی وجہ سے بہت پریشان تھے، زینت بالکل خاموش تھی۔ نوید کے گھر سے فون آیا تھا اور ان لوگوں نے رشتہ ختم کردیا اور زینت کی تو جیسے دنیا ہی اندھیر ہوگئی۔
زینت اپنی ہی نظروں میں گرچکی تھی، اُس نے ان سوچوں سے راہِ فرار اس طرح اختیار کی کہ نیند کی گولیاں بڑی تعداد میں کھالیں۔ لیکن بروقت طبی امداد سے اسے بچالیا گیا۔ گھر والے اس کی وجہ سے بہت پریشان تھے، زینت بالکل خاموش تھی۔ نوید کے گھر سے فون آیا تھا اور ان لوگوں نے رشتہ ختم کردیا تھا۔ سب کا خیال یہ ہی تھا کہ زینت نے رشتہ ختم ہونے والی بات کو دل پر لے لیا ہے۔ زینت کی امی نے مجھے بلا بھیجا کہ میں زینت کو سمجھائوں، لیکن میں زینت کو کیا سمجھاتی۔ میں تو خود شاک کی کیفیت میں تھی، نجانے یہ انہونی کیسے ہوگئی تھی۔ دل و دماغ یہ سب ماننے کو تیار ہی نہ تھے۔ زینت کی زندگی تو ایک کھیل بن کر رہ گئی تھی۔
میں جب اُس کے سامنے گئی، تو مجھے وہ ایک زندہ لاش لگی۔ جس سے جینے کا حق چھین لیا گیا ہو یا جسے زندہ درگور کردیا گیا ہو۔ میرے پاس الفاظ ختم ہوگئے تھے اور جب اس نے میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کیا تو جیسے میری ہمت ہی جواب دے گئی۔ میں نے اُسے جی بھر کے رونے دیا اور خود بھی روئی۔ زینت کہہ رہی تھی۔
”نورین تم نے تو کہا تھا کہ سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ پھر… پھر مجھے سارے مرد ایک جیسے کیوں ملے؟ بتائو نورین۔”
میں اُسے کیا جواب دیتی سوائے دلاسے کے!
”دیکھو! زینت بے شک سارے مرد ایک جیسے نہیں ہوتے، جس طرح ساری عورتیں ایک برابر نہیں ہوتیں۔ میں مانتی ہوں کہ تمہارے ساتھ بہت بُرا ہوا، لیکن جو تم نے ان بے قصور لڑکوں کے ساتھ کیا وہ ٹھیک تھا کیا؟” میرے اس سوال سے وہ لاجواب ہوگئی اور پشیمانی سے ہاتھ ملنے لگی دراصل یہ ہی صحیح بھی تھا کہ اُسے احساس ہوجائے کہ جو اس نے دوسروں کو دیا وہی اس کو واپس مل گیا۔ یہ دنیا تو مکافاتِ عمل ہے۔
”دیکھو زینت جو کچھ ہوا اسے ایک بھیانک خواب سمجھ کر بھول جائو کیوں کہ اسے یاد رکھنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں، یہ سب یاد رکھنے سے تمہیں سوائے اذیت کے کچھ نہیں ملے گا۔ اپنے ارد گرد دیکھو تمہیں بہت سے دُکھی دل نظر آئیں گے۔ جب تم ان کے دکھ سنوگی، تو تمہیں اپنے دُکھ بہت حقیر محسوس ہوں گے۔ پلیز ایک نئی زندگی شروع کرو۔ اپنے لیے نہ سہی اپنے گھر والوں کے لیے تمہیں ایسا کرنا پڑے گا۔ دیکھو سب کتنے پریشان ہیں۔” میں نے اُس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر زینت نے اپنے مسلسل بہت آنسو پونچھ ڈالے اور پھر میرے مشورے پر اس نے نرسنگ کا کورس کرلیا اور ایک اسپتال میں نرسنگ کے فرائض انجام دینے لگی۔
کچھ ہی عرصے بعد ایسے اسباب پیدا ہوگئے کہ وہ بیرون ملک روانہ ہوگئی۔ ویسے بھی اسے یہاں سوائے دُکھوں کے کیا ملا تھا۔ باہر جانے سے پہلے وہ دیر تک میرے گلے لگ کر روتی رہی اور میں اس کی پیٹھ تھپتھپاتی رہی۔
بعد میں اس نے اپنے والدین کو بھی اپنے پاس بلوالیا اور اب کافی عرصے بعد اس کے فون نے ثابت کردیا ہے کہ آج بھی وہ مجھے نہیں بھولی ہے۔
میری دعا ہے کہ زینت کو ایک اچھا جیون ساتھی مل جائے جو اس کے سارے دکھ سمیٹ لے اور اس کی زندگی میں خوشیوں کی بہار آجائے۔ (آمین)
٭٭…٭٭

Leave a comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اردو ادب، شاعری اور نثر – سب ایک جگہ
آپ کے ذوق کی دنیا، بس ایک کلک کی دوری پر

Get The Latest Updates

Subscribe to our newsletter to get our newest articles instantly!

Copyright 2025 . All rights reserved Huroof powered by Arkanteck.