Afsanay

Karishma Qudrat Ka – کرشمہ قدرت کا

Share
Share

اتوار کا دن تھا سہ پہر کو میں ایک دوست کے ولیمے سے فارغ ہو کر جب گھر پہنچا تو گھر کے دروازے کے ساتھ ایک نئی سوزوکی کار میری نظروں کے سامنے تھی سوچ رہا تھا کہ کون مہمان ہیں؟کہاں سے آئے ہوں گے ۔؟
٭…٭…٭
چند لمحے بعد میں گھر کی دہلیز کو عبور کرتے ہوئے جب صحن سے گزرا تو وہاں پر میری والدہ خالہ نسرین ان کی بیٹی ناصرہ اور بیٹا شکیل بیٹھے تھے۔ میری نظر خالہ نسرین کے چہرے پر پڑی تو خدایاد آگیا۔ خالہ نسرین کے چہرے پر اتنی نورانیت سفید لبا س میں ملبوس بڑی سفید چادر اپنے اوپر اوڑھے بیٹھی ہوئی تھیں۔امی نے بتایا کہ یہ خالہ نسرین ہیں پچھلے ہی دنوں حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کر کے آئیں ہیں۔ میں خالہ نسرین سے ملا انہوں نے میرے کاندھے پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا۔
مجھے ان سے مل کر خوشی بھی بہت ہوئی خالہ نسرین جن کو میں تقریباً دس سال بعد ملا تھا۔ باتوں باتوں میں خالہ کے ماضی کا ذکر چل پڑا ان کا ماضی ان کی زبانی تحریر کرتا ہوں۔
سترہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی شادی کے ایک سال بعد شکیل پیدا ہوا پھر دوسال کے بعد کاشف اور پھر بیٹی ناصرہ گویا شادی کے پانچ سال بعد میرے تین بچے ہو گئے ۔پھر زندگی میں ایک ایسا دن آیا جو میرے لیے کرب اور اذیت بن گیا۔ میرے خاوند کا ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوا تھا ۔ ہر طرف ماتم ہی ماتم ساراگھر سوگوار تھا مجھے تو اپنا ہوش ہی نہ رہا جب ان کی میت گھر میںآئی تو گویا میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی ہو۔ شکیل کے ابا کے دنیا سے جانے کے بعد گھر وہ گھر نہ رہا اب تو مجھے اپنے ہی گھر کے درودیواروں سے خوف آنے لگا تھا ۔شکیل کے ابا کی جدائی کے بعد گھر میں تنہائی نے ڈیرے ڈال لیے تھے ۔ان کے جانے کے بعد سب کچھ یکسربدل کر رہ گیا ۔
٭…٭…٭
خیر عدت کا عرصہ پورا ہوا تو میںنے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اپنے بچوں کے بارے میں ہر وقت آنکھوں میں آنسو ہی رہتے کہ اﷲ تعالی نے مجھے اولاد تو دی ہے لیکن اولاددے کر بچوں کے باپ کا سہارا مجھ سے چھن لیا گیا۔ کچھ عرصہ تو رشتہ داروں نے گھر کے انتظامات کا بندوبست کیے رکھا لیکن آخر کب تک؟ ۔
گھر میں فاقوں کی نوبت آنے لگ گئی میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا ۔ لیکن آخر کار میری ایک کزن ایک دن میرے گھر آئی اور اس نے مجھے تسلی دی کہ جب دنیا کے سارے رشتے چھوڑ جاتے ہیں مگراﷲ تعالی اپنے بندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا ۔
٭…٭…٭
پھر میں نے دو گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ صبح ہوتے ہی اپناکام کرنا اپنے بچوں کو ناشتہ بنا کر دینا پھر ایک گھر میں کام کیا تھا۔ جھاڑو دینا برتن دھونا کپڑے دھونا اور کمروں کی صاف صفائی کبھی کبھار تو یوں ہوتا کہ جب بیگم صاحبہ کے مہمان ہوتے تو برتن دھوتے دھوتے شام ہو جاتی اور ہاتھ بھی درد کرنے لگتے ۔ میں جن لوگوں کے گھر کام کرتی تھی ان کے بچوں کے پرانے کپڑے وہ مجھے دے دیتی اور بیگم صاحبہ اپنے کپڑے مجھے دیتے تھے ۔اس طرح زندگی کا پہیہ آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ دوسرے صاحب کی بیگم بھی اچھی تھی وہ اکثر اوقات کھانا بھی دے دیتی لیکن جتنا میںان کا کام کرتی تھی اس کے حساب سے مزدوری تو نہ تھی لیکن مجبور ی تھی۔اور یہ بڑے لوگ ہم جیسے غریبوں لوگوںکی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن سارے امیر لوگ ایک طرح کے نہیں ہوتے کئی احباب میں انسانیت کی ہمدردی بھی ہوتی ہے۔
یوں وقت گزرتا گیا میرے بیٹے شکیل نے آٹھویں کلاس میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی کاشف نے ساتویں کا امتحان پاس کیا ناصرہ بیٹی نے چھٹی کا امتحان پاس کیا۔ اپنی جان کو دکھوں میں ڈال کر رات دن کام کرکے اپنے بچوں کے لیے کماتی تھی مجھے کسی سے مانگنا اچھا نہیں لگتا تھا۔کیوں کہ خیرات لینے سے بہتر ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں سے کوئی نہ کوئی کام کرے ۔
ایک دن شکیل کو بہت تیز بخار ہوا دوائی لینے کے بعد بھی کوئی خاص آرام نہ آیا تو ڈاکٹر نے شہر لے جانے کو کہا ۔بیگم صاحبہ سے تین سو روپے لیے اور شکیل کو لے کر شہر سول اسپتال میں آئی تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ بچے کو ٹائیفائیڈ ہوگیا ہے اسے کچھ دن اسپتال میں داخل رہنا پڑے گا میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ میں تو ایک بیوہ ہوں غربت کی چکی میں پس رہی ہوں میرے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ہیں اپنی ساری کہانی میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتا دئی۔
ڈاکٹر صاحب بھی بہت مہربان اور شفیق انسان تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اگر اسپتال میں تمہاری نوکری لگ جائے تو کام کر لو گی مجھے ا س وقت تو بڑا عجیب لگا کہ میں شہر میں کس طرح سب کچھ کر سکوں گی لیکن ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ سرکاری کواٹر بھی مل جائے گا ۔
٭…٭…٭
یوں میں گاؤں سے شہر آگئی اپنے بچوں کو لے کر میں ہسپتال میں بھی کام کرتی اور ڈاکٹر صاحب کے گھر بھی ان کا کام کرتی تھی۔بہت ہی نرم دل تھی ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ زرینہ صاحبہ یوں شہر آنے پر زرینہ صاحبہ نے مجھے بہت تسلی دی مجھے بہت سہارا دیتی تھیں۔زرینہ باجی کہا کرتی تھیں کہ اﷲ تعالی کسی کی محنت کو کبھی ضائع نہیں کرتے ۔
وقت گزرتا گیاشکیل نے میٹرک کرنے کے بعد گارمنٹس کی فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دیا۔ کاشف نے بھی میٹرک کرنے کے بعد بھائی کے ساتھ فیکٹری میں کام کرنا شروع کردیا یوں زندگی میں خوشحالی کے دن لوٹ آرہے تھے ۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک بیٹا یورپ میں جاب کرتا ہے ۔گذشتہ دس سال سے بہت ہی اچھا انسان ہے 4 سال سے میرے بیٹے شکیل کو یورپ لے کر گیا وہاں اس کی جاب لگوائی کاشف نے گارمنٹس کی اپنی فیکٹری کھول لی اب کاشف لاہور میں اپنی گارمنٹس کی فیکٹری چلا رہا ہے۔ اور شکیل یورپ میں ہوتا ہے میری ساری محنت کا پھل مجھے مل گیا ہے ۔
٭…٭…٭
اﷲ تعالیٰ کا میں جتنا شکر ادا کروں کم ہے آج شہر میں دو منزلہ مکان میرا اپنا ہے اور گاڑی بھی اﷲ تعالیٰ نے دی ہے ۔اور اﷲ کے فضل و کرم سے اس سال میری بیٹی ناصرہ اور شکیل بیٹا حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کر کے آئے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اﷲ تعالی ہم سب کو حج بیت اﷲ کی سعادت نصیب فرمائے۔
آخر میں،میں صرف یہی کہوں گی کہ جب قدرت مہربان ہو تو اﷲ تعالیٰ ہر انسان پر لطف و کرم کی بارشیں نازل ہوتی ہیں۔
٭٭…٭٭

Leave a comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اردو ادب، شاعری اور نثر – سب ایک جگہ
آپ کے ذوق کی دنیا، بس ایک کلک کی دوری پر

Get The Latest Updates

Subscribe to our newsletter to get our newest articles instantly!

Copyright 2025 . All rights reserved Huroof powered by Arkanteck.