اُس کو میں نے جب بھی دیکھا انگلیوں پر کچھ گنتا رہتا ۔گرمی ہو یا سردی دھوپ ہو یا چھاؤں بارش ہو یا آندھی ہو طوفان وہ ہر طرح کے موسم سے بے نیاز سڑکوں پر پھرتا رہتا۔ اگر کوئی روٹی ہاتھ میں رکھتا تو کھا لیتا اگر کوئی چائے کا کپ ہاتھ میں دیتا تو آرام سے بیٹھ کے پی لیتا چائے پی کر کپ کو واپس سلیقے سے دے کر مسکرا کر آگے بڑھ جاتا ۔کوئی بھکاری سمجھ کر روپیہ پیسہ دینے کی کوشش کرتا تو کبھی نا لیتا بلکہ وہیں گرا کر آگے روانہ ہوجاتا۔
٭…٭…٭
لوگ اس کو پاگل،سائیں ،مست اور نہ جانے کیا کیا کہتے تھے ۔مگر میرا دل نہیں مانتا تھا کہ یہ آدمی پاگل ہے کیوں کہ میں اکثر دیکھتا تھا کہ اگر کوئی دکان دار اسے پیسے دے کر کہتا کہ جاؤ فلاں دوکان سے سگریٹ،بوتل یا پان لے آؤ تو وہ جاتا اور لے آتا اور بقایا پیسے اس کو واپس کر دیتا اب اس طرح کے آدمی کو پاگل یا دیوانہ کہنا کہاں کی عقلمندی کہیں گے۔ میرا دل کہتا کہ اگر اس کو اعتماد میں لیا جائے اور احتیاط کی جائے تو یہ دوبارہ سے دنیا میں واپس آسکتا ہے ۔ جب کہ اس وقت وہ اس دنیا میں چلنے پھرنے کے باوجود دنیا سے بے خبر ہے۔
جب میں بھی وہاںسے گزرتا تو میں نے اسے مختلف جہگوں پہ بیٹھے وہاں سگریٹ سلگائے چہرے پہ مسکراہٹ سجائے انگلیوں پہ کچھ گنتے یا کسی کے لیے چائے وغیرہ لاتے ہی دیکھا پھر ایک روز میں اپنے مقررہ ٹائم پہ گزرا تو مجھے وہ نظر نہ آیا ۔میں نے ادھر اُدھر دیکھا تو ضرور وہ مجھے کہیں بھی نظر نہیں آیا میں اپنی ڈیوٹی پر چلا گیا۔ واپسی پر میں نے دیکھا کہ وہ وہیں بس اسٹاپ پر ہی ایک طرف دیوار کے پاس کھڑا ہے اپنے مخصوص اندازمیں سگریٹ کے کش لگا رہا ہے۔ مجھے کافی اطمینان سا محسوس ہوا اور میں نے دل میں یہ سوچا کہ کاش میرے وسائل اتنے ہوتے کہ میں اس کو کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھاتا تو شاید یہ ٹھیک ہوجائے۔
اگلے روز جمعتہ المبارک کا دن تھا اور مجھے آفس کی چھٹی تھی ۔چھٹی کا دن اکثر گھر کے کاموں میں گزرتا تھا اور اس دن ڈیوٹی کے دنوں سے بھی زیادہ مصروفیات لگتی ہوتی تھی موسم گرد آلود تھا ۔جھکڑ چل رہا تھا اور مجھے ایسے موسم سے بہت کوفت محسوس ہوتی ہے۔ یا تو ہلکی ہلکی بارش بھی ساتھ ہوجائے تو آندھی طوفان پہ غصہ نہیں آتا کیوں کہ پھر گرد نہیںاڑتی مگر جب خالی گرد اڑتی ہے تو مجھے بہت غصہ آتا ہے ۔میں آج ارادتاً گھر سے نکلا اور اسٹاپ کی طرف چلا گیا اور جا کر ایک چائے کی دکان پر بیٹھ گیا اور چائے کا آرڈر دیا ساتھ میں پکوڑے منگوالیے۔
٭…٭…٭
ٹی اسٹال والے نے بینچ کو اچھی طرح صاف کرنے کے بعد بہت گرمجوشی کے ساتھ بیٹھنے کو کہا چونکہ میں روزانہ وہاں سے گزرتا تھا ۔مگر کبھی چائے وغیرہ پینے کی زحمت نہیں کی تھی اور آج خلاف معمول وہاں بیٹھا گیا تھا اس لیے شاید وہ دکان والا بھی حیران اور خوش تھا ۔
بہر ہال مجھے تو اپنا مدعا حل کرنا تھا جس سلسلے میں وہاں بیٹھا تھا اتنے میں ہلکی ہلکی رم جھم شروع ہو چکی تھی۔ اور ایسے موسم میں چائے اور پکوڑوں سے بہتر شاید ہی کوئی چیز ہو۔
جیسے ہی چائے والا میری چائے رکھنے آیا میں نے بہت مؤدب انداز میں کہا بھائی جی اگر آپ کے پاس ٹائم ہو تو مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے ۔
جی بابو جی پوچھیے…
اس نے بہت پیار سے جواب دیا… وہ دراصل مجھے دیوار کے ساتھ لگے …اس مجنوں حالت آدمی کے بارے میں پوچھنا تھا ۔
آہ ہا… بابو جی…ان کے بارے میں کیا پوچھتے ہو جی۔
السلام وعلیکم…وعلیکم السلام …کیا حال ہے بیٹا…ٹھیک ہونا …ارے بھئی جلدی سے چائے پلاؤ اور آجا کا اخبار تو دینا ذرا …ابھی چائے والا مجھے کچھ بتانے ہی والا تھا کہ انتہائی معمر بزرگ ایک ہاتھ میں چھتری اور ایک ہاتھ میں عصا تھامے اندر داخل ہوئے اور آتے ہی چائے اور اخبار طلب کی۔
چائے والے نے بہت احترام کے ساتھ بابا جی کو کرسی پیش کی اور ساتھ ہی مجھ سے مخاطب ہوا”یہ ہمارے بزرگ ریٹائرڈ ٹیچر اﷲ بخش صاحب ہیں یہ آپ کو اس مجنوں کے بارے میں بتائیں گے ۔”
میں نے بھی نہایت ادب کے ساتھ ماسٹر صاحب اﷲ بخش کو سلام کیا انہوں نے بہت پیار سے مجھے اپنے پاس والی کرسی پر بٹھا لیا ۔یہ قدرتی بات ہے کہ انسان جب جوان ہوتا ہے تو اس کے پاس سنانے کا ٹائم نہیں ہوتا مگر جب و بوڑھا ہو جاتا ہے تو ا سکے پاس سنانے کا اتنا ٹائم ہوتا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ میں دن رات سناتا رہوں بولتا رہوں مگر کوئی لمحہ بھر اس کے پاس بیٹھ کر سنتا نہیں کیوں کہ تب دوسرون کے پاس ٹائم نہیں ہوتا ۔
ماسٹر اﷲ بخش کا بھی یہ روزانہ کا معول تھا کہ وہ ٹی اسٹال پر آکر بیٹھتے چائے پیتے اخبار پڑھتے اور آدھا دن یہاں بیٹھا گزر جاتا پھر نماز ظہر کا ٹائم ہوتا تو وہ مسجد کی طرف چل نکلتے ۔مجھے اپنی پریشانی حل کرنا تھی اور ماسٹر صاحب کو اپنی باتیں سنانے کے لیے ایک مطلوبہ آدمی مل گیا تھا اس لیے وہ خوش ہوگئے کہ ”خوب گزرے گی جو مل کر بیٹھیں گے دیوانے دو” پھر اس مجنوں شخص کی جو روئیداد ماسٹر صاحب نے سنائی وہ کچھ اس طرح تھی۔
٭…٭…٭
حاکم پور گاؤں کا چوہدری حاکم لاکھ برا سہی مگر اس کی ایک بات سب کو پسندتھی کہ وہ اپنے گاؤں میں تعلیم کے حق میں تھا وہ یہ چاہتا تھا کہ اس کے گاوں کے لوگ پڑھ لکھ کر اعلی عہدوں پہ فائز ہوں اس کا گاؤں ترقی کرے گاؤں مین اسکول کالج اسپتال ہر طرح کی سہولت ہو ۔دوسری طرف چوہدری حاکم کو شراب اور شباب دونوں کی لت تھی اس کی اکثر راتیں شہر میں گزرتیں جس میں اس کا کوئی کمین ا سکے ساتھ نہ ہوتا تھا بلکہ وہ جب بھی باہر نکلتا اکیلا ہی ہوتا تھا چوہدری حاکم کی بیوی مسرت بی بی ایک اچھی عورت تھی۔پورا گاؤں اس کی عزت کرتا تھا غریب مزارعوں کی عورتوں کا وہ خیال رکھتی اس کسی بھی ضرورت کے وقت وہ فوراً مدد کرتی۔ ارسلان جس کو سب پیار شانی کہتے تھے بہت پیارا بچہ تھا چودہری کا اکلوتا لخت جگر چوہدری ا س پر جان چھڑکتا تھا اور کہا کرتا تھا میرا بیٹا بڑا ہو کر اعلی تعلیم حاصل کر کے اس گاؤں کا نام روشن کرے گا ۔
پھر یہاں نہ صرف اسکول بلکہ کالج بنے گا پکی سڑکیں ہوں گی ہسپتال ہوگا جس میں 24 گھنٹے ڈاکٹر کی حاضری یقینی ہوگی اور چوہدری کی باتیں سن کردل کو ایک اطمینان سا ملتا کہ کاش وہ وقت جلد آجائے ۔
چوہدری حاکم کی کوششوں سے گاؤں میں پرائمری اسکول کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ اور ابتدائی طور پر اﷲ بخش جس نے میٹرک کیا ہوا تھا وہ ماسٹر بن کر اسکول چلانے لگا ۔ ماسٹر بخش روزانہ گھر گھر جا کر لوگوں کو تعلیم کے لیے آگاہی دیتا اور سب محبتوں کے ساتھ بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم دینے لگے ۔اسکول کی ابھی کوئی عمارت نہ تھی شیشم کے پرانے درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر ایک پرانے سے لکڑی کے تختے کو بلیک بورڈ بنا کر کام لیا جا رہا تھا ۔چوہدری حاکم کا بیٹا شانی شہر میں پڑھ رہا تھا اور وہیں ہوسٹل میں رہتا تھا ۔
٭…٭…٭
وقت کا کام ہے چلتے رہنا اور یہ چلتا ہی رہتا ہے کسی کے ہونے یا نا ہونے سے ۔رہنے یا نہ رہنے سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا یہ اپنی رفتار سے چلتا رہتا ہے شانی ا علی تعلیم کے حصول کے بعد گاؤں آیا پورا گاوں اسے دیکھ کر بہت خوش ہو رہا تھا اور دعائیں کر رہا تھا کہ جو اُمیدیں چھوٹے چوہدری سے وابسطہ ہیں کا ش وہ پوری ہوں۔چوہدری حاکم نے حسب وعدہ تمام پورے کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔
شانی باہر گاؤں میں کھیتوں میں کھڑا ہسپتال اور کالج بنانے کے منصوبے پہ غور کر رہا تھا کہ ایک ٹیکسی گاؤں کی جانب آتی نظر آئی۔ شانی نے ٹیکسی سے توجہ ہٹا کرذہن اپنے منصوبے کی طرف کر دیا مگر جب گاڑی اس کے پاس آکر رکی تو اسے مجبوراً اپنا دھیان ان کی جانب کرنا پڑا گاڑی میں تین نوجوان لڑکے اور ایک ماڈرن قسم کی عورت بیٹھی تھی اور ٹیکسی کی چھت پر تین بڑے بڑے بریف کیس رکھے ہوئے تھے ۔ یا تو وہ لوگ گاؤں میں کسی فنگشن کی غرض سے آرہے تھے یا وہ لوگ کسی رشتے دار کے ہاں چھٹیاں گزارنے آرہے تھے اور ان کا کافی دن رہنے کا پلان لگ رہا تھا۔ ۔
چوہدری حاکم کا ڈیرہ یا بنگلہ کس طرف ہے نوجوان؟گاڑی کے آگے کی سیٹ پہ بیٹھی آنکھوں پہ چشمہ سجائے عورت نے سوال کیا ۔
شانی حیران ہوگیا یہ تو ہمارے گھر کا ہی پتہ پوچھ رہیں ہیں۔ مگر یہ لوگ ہں کون آخر عورت کو ایک مرتبہ پھر پوچھنا پڑا تو شانی نے ہڑبڑاتے ہوئے رستہ بتایا اور خود بت بنا سوچتا رہا کہ کون ہو سکتے ہیںیہ لوگ؟
٭…٭…٭
چوہدری حاکم گھر پہ ہی موجود تھا جب گیٹ کھلا اور ٹیکسی اندر داخل ہوئی تو ا سکے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ یہ لوگ گھر بھی آسکتے ہیں۔
”ناصرہ بیگم تم اور یہاں…؟”
چوہدری حاکم کے پاس بیٹھے گاؤں کے کچھ لوگ اور پاس کھڑے ملازم بھی چوہدری صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور تجسس میں تھے کہ آخر اصل معاملہ کیا ہے ۔ ”ہاںچوہدری صاحب میں ہی ہوں…میں نے سوچا آپ کو بہت دفعہ کہہ کر دیکھ لیا شاید آپ کے پاس واقعی ٹائم نہیں تھا کہ ہمیں لینے آتے اور یہاں آکر مجھے یقین آگیا کہ آپ واقعی میں مصروف تھے” اس لیے ہم خود ہی چلے آتے ہیں۔ مجھے امید ہے کے آپ کو بالکل برا نہیں لگا ہوگا۔ ناصرہ بیگم بے باکانہ انداز میں محو گفتگو تھی ۔
چوہدری حاکم نے اس کو ٹوکا اور آہستہ آواز میں اور اکیلے میں بات کرنے کے لیے کہا مگر یقیناً ناصرہ بیگم واپس پلٹ کر جانے کے لیے تو آئی ہی نہیں تھیں۔اس لیے انھوں نے کہا فی الحال ہم تو اندر آرام کرنے جا رہے ہیں باقی باتیں کھانے کے بعد ہوں گی آپ ذرا ملازم کو کھانے کا کہہ دیں پلیز۔
چوہدری صاحب کے تو جیسے اوسان خطا ہوچکے تھے وہ اس اچانک حملے کے لیے ذرا بھی تیار نہ تھے۔ ناصرہ بیگم اپنے بیٹوں کے ہمراہ مکمل تیاری کے ساتھ رہنے کے لیے آئی تھی۔ چوہدری کے پاس انکار کی گنجائش نہ بچی تھی اسی اثناء میں شانی بھی گھر میںداخل ہوا اس کے ذہن میں تو یہی تھا کہ بابا کے جاننے والے ہیںاور گاؤں کی سیر کے لیے آئے ہوںگے۔ مگر جب ا سکو حقیقت کا علم ہوا تو غصے اور حیرانگی کے ملے جلے تاثرات سے اس کی زبان گنگ رہ گئی کسی نوکرانی سے جب ا س تماشے کی خبر مسرت بی بی تک پہنچی تو وہ بھاگتے ہوئے باہر آئی تو ناصرہ بیگم مڈھ بھیڑ ہوگئی۔
اچھا تو یہ ہیں اس حویلی کی بیگم صاحبہ …ناصرہ نے دانت پیستے ہوئے کہا ۔
ہاں میںہوں… مگر تم کون ہو جو ہمارے گھر میں بلا اجازت گھسی چلی جا رہی ہو اگر کوئی حاجت مند ہو تو باہر کھڑی ہو کر سوال کرو …تمہاری التجاء پوری کی جائے گی اور اگر کوئی پریشانی ہے تو بھی باہر بیٹھو…اندرآنے کی جرات کیسے کی تم نے …مسرت بولی۔
زیادہ چلانے کی ضرورت نہیں …میں اس گھر کی مالکن چوہدری حاکم کی بیوی ہوںاور یہ تینوں چوہدری حاکم کے بیٹے ہیں ہم قانونی اور شرعی طور پر اس وراثت کے حقدار ہیں کسی میں ہمیں روکنے یا ٹوکنے کی جرات یا ہمت ہے تو سامنے آئے ۔
اتنی بڑی بات سننے کے بعد تمام نوکر نوکرانیاں حیران اور شانی غصے کے عالم میں پاگل ہوا جا رہا تھا۔ جبکہ مسرت بی بی جو تھوڑی دیر پہلے غصے سے گرج رہی تھیںاس کو اچانک اٹیک ہوگیا اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔
شانی نے فوراً ماں کو اٹھایا اور ہسپتال لے جانے لگا چوہدری حاکم اب تک بت بنا کھڑا ہوا تھا وہ اس مرحلے پر کیا کرے ۔
٭…٭…٭
شانی ڈرائیور کے ہمراہ ماں کو لے کر تیزی سے شہر کی جانب جا رہا تھا۔مگر شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا راستے میں ہی مسرت بی بی نے دم توڑ دیا ۔
چوہدری حاکم کے ہوش ٹھکانے آئے تو ناصرہ بیگم کے پاس ان کے کمرے میں آیا اور برس پڑا ”تمہیں کس چیز کی کمی تھی شہر میں اور آخر جلدی ہی کیا تھی جو تم یہاں بھاگ آئی جب تمہیں شہر میں ہر طرح کی سہولت تھی اور ہفتے میں دو دفعہ چکر بھی لگاتا تھا تو تم کیوں آئی ہو یہاں۔کیوں تماشہ بنایا مجھے پورے گاؤں کے سامنے اب کیا عزت رہ گئی میری یہاں وہ لوگ جو میرے تلوے چاٹا کرتے تھے اب وہی باتیں کرے گے ۔”
ابھی باتیں جاری تھیں کے شانی کی گاڑی حویلی میں داخل ہوئی چوہدری باہر نکلا کہ دیکھا جائے کہ کیا صورت حال ہے مگر آگے سے شانی کی چیخیں اس کے کانوں میں پڑیں چوہدری حاکم کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی جلدی اس کا گھر اجڑ جائے گا۔ مسرت بی بی ا س دنیا میں نہیں رہی تھی۔شانی کی دنیا اندھیر ہوگئی تھی اس کو غشی کے دورے پڑ رہے تھے غریب مزارعے گاؤں کے کے دوسرے لوگ نوکر چاکر نوکرانیاں سب ہی اس ناگہانی موت سے ٹوٹ کر رہ گئے سب کا خیال رکھنے والی مسرت بی بی ان کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلی گئی تھی ہر کوئی شانی کو سنبھال رہا تھا مگر وہ اپنی ماں سے لپٹا ہوا تھا ۔
ناصرہ بیگم بڑی چالاک عورت تھی اس نے اپنے بچوں کو سمجھایا کہ یہی وقت ہے ہمدردی حاصل کرنے کا اور ان کے رستے سے ایک بڑی رکاوٹ خود بخود ختم ہو گئی ہے اور دوسری رکاوٹ شانی کو قابو کرنا اتنا مشکل نہ ہوگا ۔ا س لیے سب باہر نکلو اور اس نازک موقع پر لوگوں اور چوہدری کی ہمدردیاں سمیٹو۔
تینوں بچے ناصرہ خود فوراً باہر نکلے اور زور زور سے رونے کا ناٹک کرنے لگے ۔راشد ،ناصر اور امجد تینوں نے شانی کو سنبھالنا چاہا مگر شانی نے تینوں کو جھٹک دیا اور اپنی ماں کا قاتل کہہ کے پیچھے ہٹنے کا حکم دیا جبکہ ناصرہ بیگم رورو کر گاؤں کی عورتوں کو اکھٹا دیکھ کر مزید ناٹک میں انجوائے کر رہی تھی اس کی نگاہیں آنے والے وقت پہ تھیں جس میں وہ خود چوہدرانی کے روپ میں دیکھ رہی تھی۔
٭…٭…٭
آج مسرت کو گزرے ساتواں دن تھا شانی ان چاروں کو دیکھ کر ان کے چہروں پہ اپنی ماں کا خون دکھائی دیتا ۔ناصرہ بیگم نے اپنی چالا کیوں کی بدولت بہت سی عورتوں کو اپنا گرویدہ کر لیا تھا ویسے بھی ہمارے معاشرے میں صرف چمکتے سورج کی پوجا کی جاتی ہے جو لو مسرت کے قدموں میں بیٹھا کرتے تھے آج وہی ناصرہ کے تلوے چاٹ رہے تھے چوہدری حاکم نے بھی حقیقت کو تسلیم کر لیا تھا ۔
ناصرہ بیگم کو بھی اس سے محبت نہ تھی ۔وہ تو ایک گیسٹ ہاؤس کے Reception پہ کام کرتی تھی اور چوہدری حاکم وہاں اکثر راتیں گزارنے جایا کرتا تھا اور پھر واپسی پر کمرے کے مطلوبہ کرائے سے زائد ادا کر دیا کرتا تھا ۔ تو ناصرہ نے جان لیا کے یہ کافی موٹی اسامی ہے پھر ایک رات وہ خود چوہدری کے کمرے میں پہنچ گئی اور چوہدری کو سہانے سپنے دکھا کر ایک جھلک دکھا کر واپس پلٹ آئی اور پھر جب چوہدری تڑپتا ہوا اس کی جانب لپکا تو اس نے نکاح سے پہلے اپنے مرمریں بدن کو چھونے کی ہرگز اجازت نہ دی۔
اور پھر چوہدری نے اسے ایک الگ کوارٹر لے کر دیا ناصرہ کے گھر میں صرف اس کے بوڑھے ماں باپ تھے جن کی وجہ سے اُسے نوکری کرنا پڑتی تھی حاکم کو پھانسنے اور نکاح کے بعد اس کی ساری پریشانیاں ختم ہو گئیں۔پھر جب ناصرہ کے ہاں پہلا بیٹا راشد پیدا ہوا تو اس نے چوہدری کو بولا کے اس کو گاؤں لے چلے کیوں کہ اپنے بچے کی پرورش یہاں چھپ کر نہیں بلکہ شہزادوں کی طرح کرنا چاہتی ہے۔ مگر چوہدری نے اسے سمجھایا کہ وہ ابھی اسے ساتھ نہیں لے جا سکتااسے کچھ انتظار کرنا ہوگا ۔پھر دوسرا اور تیسرا بچہ ہونے پر بھی ناصرہ بیگم کو یہی جواب ملا تو ا سنے بہت ضد کی مگرچوہدری ٹال مٹول سے کام لیتا رہا ۔
٭…٭…٭
اب بچے جوان ہو چکے تھے تو ناصرہ بیگم نے ایک روز بنا بتائے گاؤں چلی آئی اور اس کے آتے ہی مسرت اس دنیا سے رخصت ہوگئی اور اس کا رستہ کافی حد تک صاف ہو چکا تھا ۔اور اسے وہ جگہ م گئی تھی جس میں اس کا کوئی بھی حصے دار نہ تھا ۔کافی زیادہ عوریں تو اس کے قدموں میں بیٹھی رہتیں مگر بہت سے نوکر چاکر اور گاؤں کے مرد تو اس کی جھلک دیکھنے کے خواہش مند رہتے۔ کیوں کہ وہ تین جوان بچوں کی ماں ہونے کے باوجود ایک کنواری دوشیزہ لگتی تھی اور ہمہ وقت تیز میک اپ اور نت نئے ڈیزائن اور اسٹائل کے کپڑے زیب تن کیے تھے ۔
شانی کو وہ زہر لگتی تھی ۔ناصرہ بیگم اکثر و بیشتر کوشش کرتی تھی کہ شانی کو اپنے ہاتھ میں کر سکے وہ اکثر اس کے کمرے میں آجاتی اور اس سے پوچھتی بیٹا کیا تم نے کھانا کھا لیابیٹا تم ٹھیک تو ہونا …مگر شانی بہت سمجھدار تھا اسے ایسے چونچلوں سے شدید نفرت تھی۔راشد اور چھوٹا امجد بھی اکثر شانی سے بات کرنے کی کوشش کرتے مگر ناصر کچھ زیادہ ہی اکڑ میں رہتا اور شانی ان دونوں کو بھی بات کرنے کا موقع نہ دیتا۔
ناصرہ بیگم نے منشی عزیز کو بھی مٹھی میں کر لیا تھا اور اسے یہ لالچ دے رکھا تھا وہ ایک بڑی رقم اسے دے گی ۔ابھی بھی اس نے کچھ روپے دے دیے کہ وہ دل کھول کر خرچ کرے اور آئندہ چوہدری حاکم کی زمین کا حساب کتاب اسے بتایا کرے کہ رقم کہاں کہاں سے اور کتنی آتی ہے سب اس نے چند دنوں میںحساب لکھ لیا تھا۔
٭…٭…٭
سورج غروب ہونے کو تھا دور افق پر مدھم سی روشنی نظرآررہی تھی اپنی زمینوں پر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ارسلان کسی گہری سوچ میں تھا۔ اور انگلیوں میں کچھ حساب لگانے میں مصروف تھا اس کے دل اور دماغ میں بہت سے خیالات تھے مگر آج دو ماہ ہو گئے تھے اس کی ماں کو گزرے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ اسکول کا کام بھی شروع کروایا جائے اور ہسپتال کا سنگ بنیاد بھی رکھ دینا چاہیے ۔
منشی عزیز کی بیٹی زرینہ کافی دیر سے چھت پہ کھڑی کھیتوں کی طرف دیکھ رہی تھی وہ شانی سے بہت عرصے سے محبت کرتی تھی ۔غریب ہونے کے ناطے کبھی اظہار کرنے کی جرات نہ کر سکی مگر وہ آج شانی سے کسی اور مسئلے پہ گفتگو کرنے کے لیے ملنا چاہتی تھی مگر شانی اتنی آہستہ آرہا تھا کہ شاید اس طرح تو اس کو ایک گھنٹہ لگ جاتا وہاں تک پہنچنے میں اور زرینہ کوڈر تھا اندھیرا ہونے کو ہے کہیں اب اہی نا آجائیں زرینہ چھت سے نیچے آگئی اور دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہو کر راہ تکنے لگی کہ شانی ادھر سے ہی گزرے اور ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ رہی تھی کہ ابا اورا ماں ہی نہ گھر آجائیں کیوں کہ وہ دونوں حویلی گئے ہوئے تھے اور دونوں اس وقت ناصرہ بیگم کے خاص کارندے کے طور پر کام کر رہے تھے ۔
٭…٭…٭
شام کا دھندلکے ظاہر ہوا تو چوہدری ارسلان خاموشی سے راہ گیر کی طرح گلی سے گزرے تو زرینہ نے ہلکی سی آواز لگائی…
چھوٹے چوہدری صاحب…!
شانی نے قدم روک لیے اور بولا جی…
”چھوٹے چوہدری جی میں منشی عزیز کی بیٹی زرینہ ہوںمجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔
جی کہیے …کیا کہنا ہے آپ کو…؟
جی وہ… چوہدری صاحب … وہ میں یہ کہنا چاہتی تھی کہ ابا اور اماں آج کل نئی چوہدرانی صاحبہ کے پاس کچھ زیادہ ہی بیٹھنے لگ گئے ہیں۔اور آج کل گھر میں پیسہ بھی کچھ زیادہ ہی آرہا ہے اور چھوٹا منہ بڑی بات …میرے منہ میں خاک…مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے چوہدرانی صاحبہ کچھ غلط کرنا چاہ رہی ہیں تو میں آپ سے کہنا چاہتی تھی کہ آپ ذرا سب پر نظر رکھیں۔کہیں آپ کو یا حویلی کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔یہ کہہ کر زرینہ اندر کی طرف چلی گئی ۔اور چوہدری ارسلان کے چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگی اور بہت سے سوال آنکھوں میں لیے اپنی حویلی کی طرف چل دیا۔ جب وہ حویلی میں داخل ہوا تو رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا جبکہ چوہدری حاکم دو دن سے شہر گیا ہوا تھا ۔
٭…٭…٭
جب شانی حویلی میںداخل ہوا تب منشی عزیز اور اس کی بیوی حویلی سے باہر نکل رہے تھے ۔اسے زرینہ کی کہی باتیں کسی حد تک سچ معلوم ہونے کو آئیں ۔باہر جاتے وقت منشی نے نظر جھکا کر چھوٹے چوہدری کو سلام کیا تو شانی تحکمیہ لہجے میں کہا کہ” صبح مجھے پچھلے تین ماہ کا مکمل حساب چاہیے ٹھیک 8 بجے حویلی آجانا ”اور منشی عزیز کے پاؤں تلے جیسے زمین نکل گئی اور اس نے جی سرکار کہہ کر باہر نکل جانے میں ہی عافیت جانی۔
ارسلان اپنے کمرے میں جا کر کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا حسب عادت ناصرہ بیگم نے آکر اس سے دریافت کیا کہ بیٹا کھانا لگوادوں ہم سب تو کھا چکے ہیں…بس تمہارا کھانا ہی باقی ہے اور تمہارے ابا تو نہ جانے کیوں آج بھی نہیں آئے ۔ مگر شانی نے ہمیشہ کی طرح آج بھی اسے مایوس کن لہجے میں واپس بھجوا دیا ۔ناصرہ بیگم کا انداز تو بطاہر ٹھیک تھا مگر اندر ہی وہ پیچ کھا رہی تھی ۔اُس کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے ۔
٭…٭…٭
پیسے کی لالچ میں انسان کیا کچھ کر جاتا ہے منشی سے لے کر گیٹ کے چوکیدار تک اور کھانا پکانے والی ماسی سے لے کر ڈرائیور تک سب ناصرہ نے مٹھی میں کر رکھے تھے ۔اور یہ سب پیسے کی چمک تھی کہ جب منشی کو چوہدری ارسلان کی طرف سے حکم ملا کہ صبح حساب دینا مجھے آکر تو وہ اپنے گھر واپس جانے کے بجائے پہلے ناصرہ بیگم سے ملا اور اسے یہ بات بتائی ناصرہ کو اپنا کھیل خراب ہوتا نظر آیا …تو اس نے اب اپنے پلان کو تیز کر دیا ۔اس نے اپنے آدمی راستے میں چھوڑ رکھے تھے۔ جو پیسے کی لالچ میں ہر کام کرنے کو رضا مند تھے تین دن اور تین راتوں سے چوہدری حاکم شہر کی رنگینیوں میں نہ جانے کہاں کہاں گم تھا وہ اپنی عادت سے مجبور آج بھی شہر میں ضرور ہفتہ دس دن میں چکر لگاتا تھا ۔
٭…٭…٭
گاؤں کی ایک خوش گوار صبح تھی۔لوگ اپنے ڈیروں پہ اپنے مویشیوں کا دودھ دھو رہے تھے۔ کوئی مویشیوں کو چارہ ڈال رہا تھا۔ کوئی کھیتوں میں پانی لگا رہا تھا چوہدری حاکم اپنی جیپ میں صبح صبح شہر سے واپس آرہا تھا ۔رستے مین شاید رفع ہاجت یا پھر کسی اور کام کے لیے رکا ہوگا تو ناصرہ بیگم کے کارندوں نے اپنا کام دکھلایا ۔
تھوڑی دیر بعد گاؤں میں شور مچ گیا کہ چوہدری حاکم کی جیپ الٹ گئی ہے وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے ہیں۔شانی جو صبح کی سیر کے لیے نکلا تھا فوراً جائے حادثہ پر پہنچا اور اپنا سب کچھ لُٹ جانے پر بے ہوش ہوگیا گاؤں کے سب لوگ جو مخلص تھے ان کو چوہدری کے مرنے کا بے حد غم و افسوس تھا۔ لوگوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سب اتنی جلدی ہو جائے گا ۔لوگوں کو جو امیدیں تھی وہ ختم ہوتی نظر آنے لگی۔ حویلی میں میںکہرام مچ گیا ہر طرف چیخ و پکار شروع ہو گئی ناصرہ بیگم بین کرنے میں لگی ہوئی تھی جبکہ ارسلان کو گاوں کا ایک معمولی سا ڈاکٹر صدمے سے نکالنے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا۔ایسے میں ناصر تیزی سے شہر کی جانب جانے کی تیاری میں تھا اور جب تقریباً دو گھنٹے بعد وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک ڈاکٹر نما آدمی تھا سب لوگ متاثر ہوئے کہ ناصرچوہدری …چھوٹے چوہدری کی خاطر شہر سے بڑے ڈاکٹر کو لے کر آیا ہے …مگر یہ بھی ناصرہ بیگم کی ایک چال تھی ۔اور یہ اس کی کامیابی کا بہترین طریقہ تھا ۔ شہر سے آنے والا آدمی بالکل ڈاکٹر نہیں تھا بلکہ وہ ناصرہ بیگم کا ایک جاننے والا تھا۔ جو ایک میڈیکل اسٹور پہ کام کرتا تھا اور جس سے وہ اکثر و بیشتر اپنی ضروریات کی دوائیاں وغیرہ لیا کرتی تھی۔ناصرہ بیگم کے حکم پہ شانی کو راشد اور ناصر کی مدد سے اندر لے جایا گیا اور اس کا علاج شروع کر دیا گیا۔ عصر تک چوہدری صاحب کو آہوں اور سسکیوں کے ساتھ دفن کر دیا گیا مگر افسوس کے چوہدری ارسلان اپنے باپ کی میت کو کاندھا نہ دے سکا۔ بلکہ اس کو کوئی ہوش نہ تھا اور ہوش آنا بھی کہاں تھا اسے مسلسل نیند کے انجیکشن دیے جا رہے تھے۔ اور لوگوں کو بتلایا جا رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ گہرے صدمے میں ہے دو دن تک ہوش میں آئے گا ۔
٭…٭…٭
راشد اور ناصر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے میں لگے ہوئے تھے اور ناصرہ بیگم لوگوں کو تسلی دے رہی تھی آپ لوگوں کو کسی بھی قسم کی تکلیف ہو اور ضرورت ہو آپ بلا جھجھک آسکتے ہیںیہاں تک کہ 24 گھنٹے جب بھی کوئی کام ہو آپ منشی صاحب سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ کچھ لوگ تو جو چڑھتے سورج کے پجاری تھے وہ اس کا دم بھر رہے تھے ۔مگر کچھ سمجھدار لوگ جیسے کے ماسٹر صاحب تھے ان کی نگاہ آنے والے وقت پر پڑ چکی تھی اور انہیں آنے والا وقت کچھ اچھا نظر نہیں آرہا تھا۔ انہیں اپنے گاؤں کی ترقی والی بات چواب نظر آرہی تھی کیوں کہ چھوٹاچوہدری ٹھیک نہیں تھا۔ لوگ اس کی خیریت دریافت کرنے آتے تو راشد اور ناصر لوگوں کو یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اور آرام کر رہے ہیںگہرے صدمے کی وجہ سے ڈاکٹر نے نیند کا انجیکشن دے رکھا ہے اس لیے آپ لوگ تسلی رکھیںوہ بہت جلد اپنے باپ کی گدی سنبھال لے گا ۔
ذرینہ چوہدری ارسلان کو دیکھنے آئی تو بضد ہوگئی کہ وہ چوہدری صاحب کے کمرے میں جا کر دیکھے گی۔ مگر راشد اور ناصر اس کے رستے کی رکاوٹ بن گئے جب میں نے زبردستی اندر جانے کی کوشش کی تو ناصر نے اس کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی تو زرینہ واپس اپنے گھر لوٹ آئی۔
٭…٭…٭
چوہدری ارسلان کو کمرے میں بند ایک ماہ سے اوپر ہوگیا ہے ناصرہ بیگم منگوائے ہوئے ڈاکٹر سے اسے نشہ آور انجیکشن لگا کر نیم پاگل کر دیا تھا وہ جب بھی ہوش میں آتا اٹھنے کی کوشش کرتا مگر اسے دوبارہ بے ہوش کر دیا جاتا۔ لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہو چکے تھے اب تو کبھی کبھار ہی کوئی پوچھتا تھا ورنہ سب ہی چوہدری حاکم اور ارسلان کو بھولنے لگ گئے تھے۔ راشد اور ناصر کو جب بے شمار اور بے انتہا زمینوں جائیداد کا علم ہوا تو ان کے ہوش ہی غائب ہوگئے اُن کی نظر میں تمام گاوں اور گاؤں کے مکین اب ان کی ملکیت تھے اس لیے ان کی نظر زیادہ تر گاؤں کی لڑکیوں پر تھی۔
ماسٹر اﷲ بخش حسب معمول بچوں کو تعلیم دینے میں مصروف تھے مگر اب وہ اپنے دل سے اسکول اور کالج کا خیال دل سے نکال چکے تھے۔ ہم ہر وقت دعا کرتے ہیںکہ کاش لوگ جاگ جائیں اور اپنے گاؤں کی بدلتی تقدیر کو سیدھے رستے پر ڈال سکیںاور ان ظالموں سے چھٹکارا مل جائے۔ موسم بدلے ،رنگ بدلے،سردی کی آمد آمد تھی بجلی کی شدید گرج چمک تھی لوگ اپنے اپنے گھروں میں سمٹے بیٹھے ہوئے تھے۔ جبکہ منشی عزیز چوہدری ارسلان کے کمرے سے شور شرابے کی آوازیں بلند ہوئیں اور برتن گرنے کی آواز آئی ساتھ میں قہقہے لگاتا ہوا شانی بلند آواز میں بول رہا تھا۔ سب لوگوں نے اس کے کمرے کی جانب دوڑ لگائی تو شانی کو ایسا پایا کہ جیسے ایک پاگل آدمی ہو…
ناصر اور راشد نے اسے قابو کرنے کی کوشش کی مگر وہ قابو نہیں آیا ناصر نے فوراً اسے نشے کا انجیکشن تیار کیا اور لگا دیا اب وہ اکثر خود ہی انجیکشن لگایا کرتے ہیں۔ڈاکٹر کو انہوں نے واپس بھجوا دیا ایجیکشن لگتے ہی شانی بیڈ پر ڈھیر ہوگیا منشی عزیز نے مشورہ دیا کہ ”چوہدری صاحب اگر میری مانیں تو اسے پاگل کانے میں داخل کروا دیں۔” ناصر کو یہ تجویز پسند آئی مگر ناصرہ بیگم نے اس کو بالکل پسند نہیں کیا اور منشی کو باہر بھیج کر اپنے بچوں کو سمجھایا کہ اس طرح لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ لی جائیں۔ ہم لوگوں کی نظر میں آجائیںگے پاگل تو یہ ہوچکا ہے اسے اسی طرح اذیت دے دے کر اتنا پاگل کر دو کے یہ ساری زندگی کے لیے پاگل ہی رہے ۔
٭…٭…٭
اور پھر ایسا ہوا تین سال کی مسلسل اذیت کے بعد چوہدری ارسلان مکمل طور پر پاگل ہوگیا۔ حواس کھو بیٹھا اور گلیوں میں مارا مارا پھرتا رہتا ۔اور انگلیوں میں نہ جانے کیا گنتا رہتا زرینہ جو اسے پاگل پن میں بھی والہانہ چاہتی تھی اس نے ایک دو دفعہ پکڑ کر اسے بٹھانے کی کوشش کی مگر بے سود آخر ایک دن اس نے جب منشی اور ماں کو اس کی شادی کی بات کرتے سنا تو وہ یہ کہہ رہے تھے کہ اگر ہماری بیٹی چوہدریوں کی گھر کی بہو بن جائے تو ہم آدھے حصے دار بن سکتے ہیں تو زرینہ کے سامنے ناصر اور راشد کے وحشیانہ چہرے گھوم گئے تو اس نے خودکشی کرلی۔
آج اس واقعے کو 5 سال بیت گئے ہیںگاؤں میں مکمل طور پر ناصرہ بیگم کا سکہ چل رہا ہے۔ اس کے بیٹے عیاشیوں میں مشغول جبکہ چوہدری ارسلان بے چارہ تمہارے سامنے ہے جب ماسٹر اﷲ بخش نے اپنی کہانی مکمل کی تو میں نے دیکھا کہ شانی ایک چائے کے کپ سے لطف اندوز ہو رہا ہے ۔خدا نہ کرے کسی دشمن کے ساتھ بھی ایسا ہو۔
٭٭…٭٭
Leave a comment