Afsanay

Qadam Qadam Pe Sitam – قدم قدم پہ ستم

Share
Share

ثمینہ سے میری پہلی ملاقات سپراسٹور پر ہوئی تھی۔جووہاں پرفیوم کی ورائٹی کو شوکیس کے اوپر والے حصہ پر رکھے ہوئے برانڈ منتخب کرنے میںمصروف تھی۔ میں کائونٹر کی ایک سائیڈ پر کھڑا سیلزمین کے فارغ ہونے کا انتظار کر رہا تھا، کہ کب وہ فارغ ہو اور مجھے ڈیل کرے۔ اُس نے پرفیوم منتخب کرتے ایک دو اور خواتین کے استعمال کی چیزیں لیتے بل ادا کرتے شاپر سنبھالتے کائونٹر پر جانے کی تیاری میں تھی کہ ایک لڑکا جو شکل و صورت سے لچر دکھائی پڑتا تھا۔ا سٹور کے اندر آیا ثمینہ ٹھٹھک کر رُک گئی۔ اس نے سٹور پر موجود لوگوں کی پروا کیے بغیر اس پر برسنا شرو ع کردیا اورایک بھرپور تھپڑ اس کے منہ پر جڑ دیا کام کرنے والے ملازم نے مداخلت کی تو اسے بھی تھپڑوں پر رکھ لیا میں آگے بڑھا تو مجھ پر بھی وہ برس پڑا۔ اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھتی اسی اثنا میں پولیس آ گئی۔ جو شہر میں چاروں جانب موٹر سائیکلوں پر گشت کر رہی ہوتی ہے۔ اسٹور کے اندر ہوتے جھگڑے کو دیکھتے وہ گزرتے ہوئے رُک گئے تھے۔ جھگڑاکرنے کی وجہ دریافت کی تو میں نے سب کچھ جو میرے روبرو ہوا تھا دہرایا۔ پولیس لڑکی جس کا نام ثمینہ اور اُس لڑکے کو جس نے اپنا نام وسیم بتایا تھا اورا سٹور کے ملازم جس کو وسیم نے زدو کوب کیا تھا۔ ساتھ لے کر تھانہ اے ڈویژن چل پڑے۔ مجھے بھی آنے کا کہا میں نے باہر آ کر اپنی گاڑی اسٹارٹ کی توانہوں نے ان تینوں کو پیچھے بٹھاتے ایک ملازم آگے بیٹھاتے چلنے کو کہا۔ میرے لیے یہ مداخلت بھاری پڑی۔ وسیم ملازم کے سامنے بھی ثمینہ پر برس رہا تھا۔ گشتی ہونا آخر میری موجودگی میں دوسروں سے تعلق رکھتی ہو۔ اس کی بکواس پر ملازم نے اُسے ڈانٹا تو وہ چپ ہو گیا۔ انسپکٹر عزیز چیمہ اپنے آفس میں موجود تھے۔ ہم چاروں کو ان کے سامنے پیش کرتے ہوئے ملازمین نے ساری رو داد ان کے گوش گزار کر دی۔
”کیا ہوا تھا۔” انسپکٹر نے ثمینہ کی جانب گھومتے پوچھا؟
جی میں سپرا سٹور پر شاپنگ کر رہی تھی کہ یہ آیا اور گالی گلوچ کرتے مجھے تھپڑوں سے مار پیٹ کرنے لگا، میری طرف اور اسٹور کے ملازم لڑکے کی طرف دیکھتے کہا۔ انہوںنے مداخلت کی تو انہیں بھی گالی گلوچ کرتے مارنے لگابتا کر وہ خاموش ہو گئی۔
”کیا نام ہے آپ کا؟”انسپکٹر چیمہ نے پوچھا۔
”جی ثمینہ!” اس نے اپنی چادر سر پر درست کرتے جواب دیا۔
یہ تمہیںجانتا ہے؟
”جی ہمارے گھر سے تھوڑی دور رہتا ہے اور اکثر آتے جاتے فحش کلامی کرنا اس کے روز مرہ کی عادت میں شامل ہے۔” اس نے وسیم کی طرف دیکھتے انسپکٹر چیمہ کو بتایا۔
آپ وہاں موجود تھے؟جی سر !
”میں خریداری کے لیے سٹور میں تھا ۔”میں نے جواب دیا۔
پھر وہ وسیم نامی غنڈے کی طرف متوجہ ہوئے۔” تم کیسے جانتے ہو ان محترمہ کو؟”
”جی ہمارے محلہ میں رہتی ہے کئی لوگ اس نے اپنے پیچھے لگا رکھے ہیں۔ ”اس نے تنک کر جواب دیا اور قہر آلود آنکھوں سے ثمینہ کی طرف دیکھا۔
”کیا رشتہ ہے تمہارا ان سے جو تمہیں ان پر اتنا غصہ آ گیا؟”
”سر ہماری محلے دار ہے اور ہم ایسی ویسی بے حیائی نہیں چلنے دیں گے جو یہ کرتی پھرتی ہے ۔”اس بار وسیم کی آوازمیں خاصادبدبہ تھا اور اسی جوش میں وہ آپے سے باہر ہو گیا تھا۔
انسپکٹر عزیز چیمہ برق رفتاری سے اُٹھا اور اس غنڈہ عناصر آپے خان کو بالوں سے پکڑ کر زمین پر گراتے اس پر پل پڑا پھر ملازمین کو اس کی اچھی طرح سے دھلائی کرنے کا کہا۔ تھانہ کے گیٹ کو اندر سے بند کرتے۔ ملازمین نے اسے زمین پر گراتے چھتر پریڈ شروع کر دی۔ ہر چھترپر ہائے باجی جان معاف کرنے کے فلک شگاف نعرے گونجنے لگے تھے تھانہ اے ڈویژن کے اندر باہر اس کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اس کی مار پیٹ دیکھ کر میرا اور ثمینہ سمیت اس سیلزمین کابرا حال تھا۔ جب اس کی خوب مرمت ہو چکی تو اسے دوبارہ انسپکٹر چیمہ کے سامنے پیش کیا گیا ۔مارے درد کے وہ کراہ رہا تھا۔ آپ کاغذ قلم لے کر ساری صورت حال درخواست میں لکھیں اور ساتھ میں بطور گواہ ان دونوں اصحاب کا بھی ذکر کر دیں۔
سر مجھے معاف کر دیں۔ وسیم نے انسپکٹر کے آگے ہاتھ جوڑتے استدعا کی۔
بکواس بند کرو تم جیسے بے غیرت لوگوںنے شریفوں کا جینا محال کر رکھا ہے۔
پھر اس نے پولیس ملازمین سے اسے حوالات میں بند کرنے کا کہا۔
کانسٹیبل نے اس کی جامہ تلاشی کے دوران اس کا موبائل گھڑی اور پرس نکال کر انسپکٹر صاحب کے سامنے رکھ دیا۔ پرس سے نکلنے والی تین ہزار چار سو روپے کی رقم اس کے موبائل اور گھڑی کی فہرست کاغذ پر بناتے محرر کے سپرد کرتے اسے حوالات میں بند کرنے کا کہا۔ ثمینہ نے ساری کاروائی اور کب سے وہ اسے تنگ کر رہا تھا۔ سب کچھ تحریر کرکے میرے اور اسٹور کیپر کے دستخط کرواتے اپنا نام ولدیت ایڈریس فون نمبر وغیرہ لکھ کر انسپکٹر صاحب کے آگے رکھ دی۔
انسپکٹر صاحب نے درخواست سب انسپکٹر سرور کوفاورڈ کرتے ہمیں جانے کی اجازت دیدی کہ جب ضرورت پڑے گی تمہیں فون کر کے بلا لیں گے ۔میرا نمبر اور اس لڑکے کا نمبر منشی محرر نے اپنے پاس لکھ لیا اور ہم تھانے سے باہر آ گئے۔
ثمینہ اور وہ سیلزمین جس کا نام وحید تھا میری گاڑی میں یوںآن بیٹھے جیسے میں ان کا ڈرائیور تھا۔
جی آپ نے کہاں جانا ہے میں نے پیچھے گھوم کر ثمینہ سے پوچھا؟
آپ پہلے ان کوا سٹور پر اُتاریں میں بتاتی ہوں ثمینہ نے دھیمی آواز میں میرے سوال کا جواب دیا!
اس لڑکے کو جس کا نام وحید تھا لالہ زار والی سڑک پر چھوڑتے میں نے سامنے دھیان رکھتے پھر اس سے پوچھا کہ آپ کو کہاں اُترنا ہے؟
فی الحال تو کسی ایسی جگہ رُکیں جہاں ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں مکمل تعارف ہو جائے!
میںنے گاڑی ریسٹورنٹ کی جانب موڑتے ثمینہ سے سوال کیا ”آپ کے ابو کیا کرتے ہیں؟”
”وہ اس دنیا میں نہیں ہیں دو بھائی اور ہم تین بہنیں ہیں۔ دونوں بھائی گاڑیوں کا کام کرتے ہیں مجھ سے بڑی اسکول ٹیچر ہے ۔ چھوٹی فرسٹ ایئر میں ہے میں پرائیویٹ فرم میں کمپیوٹر آپریٹر کی پوسٹ پر کام کرتی ہوں۔ گھر ہمارا اپنا ہے اور والدہ فالج کی مریضہ ہونے کے باعث چل پھر نہیں سکتی۔ سب سے بڑے بھائی کی شادی ہو چکی ہے۔ جو اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ اپنے گھر میں ہوتا ہے عابد ہم سب سے چھوٹا ہے اوربھائی کے پاس ہی ہوتا ہے شوروم پر، چھٹی کر کے سیدھا گھر آ جاتا ہے میٹرک کی تیاری گھر پر کر رہا ہے۔ پرائیویٹ داخلہ بھیجے گا۔ میں نے سمپل بی۔اے کیا ہے۔ ایل ایل ۔ بی کرنے کا ارادہ ہے۔ ”ثمینہ نے ایک ہی سانس میں اپنے بارے میں سب کچھ بتاتے مجھ سے میرے بارے میں سوال کیا” آپ کیا کرتے ہیں میرا مطلب کس شعبہ میں ہیں آپ؟”
چھوٹا سا بزنس مین ہوں غلہ منڈی میں اجناس کے علاوہ کھاد اور زرعی ادویات کا بھی کاروبار ہے۔ میرا بتاتے میں نے گاڑی کلب ریسٹورنٹ کے پارکنگ ایریامیں روک لی اور ثمینہ کو لے کر ریسٹورنٹ کے اندر آ گیا۔ ایک ٹیبل کی طرف ویٹر نے اشارہ کیا ہم اس پر آ گئے ہمارے بیٹھنے پر ویٹر نے مینو کارڈ ہمارے سامنے رکھے اور خود تھوڑا ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔” جی کیا چلے گا میں نے کارڈ پر سرسری سی نظر ڈالتے اس سے پوچھا؟”
”بریانی اور کولڈ ڈرنک مجھے بھوک لگی ہے۔” ثمینہ نے بغیر کسی تکلف کے جواباً کہا۔
میںنے آرڈر کیااور اس کا جائزہ لینے لگا۔ ثمینہ ایک مکمل اور خوبرو لڑکی تھی اور خوبصورت لوگوں کی میں دل و جان سے قدر کرتا تھا۔ میں خود چاہتا تھا کہ ثمینہ میرے ساتھ کچھ وقت گزارے میرے غیر شناسا رویہ کی پروا کیے بغیر سب کچھ وہ خود ہی کرتی جا رہی تھی۔ مجھے اپنی طرف بھرپور نظروںسے دیکھتے پا کر اس نے سکوت توڑا میرے نام کااسے پتہ پولیس اسٹیشن میںہی چل گیا تھا۔ اس لیے اس نے میرا نام لے کر مجھے ”بلایا فاروق صاحب اب پولیس والے کیا کریں گے؟”
اس کا لہجہ پریشان کن تھا۔ ”کچھ نہیں بس ہم تینوں میرا مطلب اس سیلز مین کو بار بارتھانے آنا جانا پڑے گا اور سب انسپکٹر سرور جو آپ کی درخواست پر اس سارے واقعہ کی چھان بین کرے گا اور آپ کے گھربھی جائے گا۔”
”اوراُس اسٹور پر جا کر اس بات کی تصدیق کرے گا کہ آپ کا بیان جو آپ نے تحریر ی طور پر درخواست میں لکھا ہے وہ درست ہے۔ اس کے بعد اس لڑکے پر فرد جرم عائد کرتے مقدمہ درج ہو جائے گا۔ اگر لڑکے کے لواحقین نے آپ کے گھر والوں کو راضی کر لیا تو آپ کی ہی تحریری درخواست پر لڑکے کو رہا کر دیا جائے گا۔” میں نے اسے سارے حالات سے آگاہ کیا۔
”فاروق صاحب پولیس والے ہمارے گھر آئیں گے کیا؟”
”بالکل آئیں گے” میںنے اس کے چہرے پر آئی پریشانی کی پرچھائیں محسوس کرتے جواب دیا۔
”پورا محلہ ہمارے بارے میںکیا سوچے گا۔” ثمینہ کے چہرے پر اب پریشانی اور بھی گہری ہو چکی تھی۔” اچھا آپ ریلکس ہو جائیں میںکوشش کرونگا کہ پولیس آپ کے گھر تک نہ آئے ہو سکتا ہے اس لڑکے کے لواحقین آپ کے گھر آ جائیں اور معاملہ رفع دفع کروانے کی استدعا کریں ۔میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنے محلہ داروں پر احسان چڑھاتے پولیس اسٹیشن فون کر کے اپنی درخواست واپس لینے بارے انسپکٹر صاحب سے رکوایسٹ کر لیں۔ اگر وہ انسان ہوا تو آئندہ کبھی آپ کے راستے میں نہیں آئے گا۔ ”میری بات پر اس نے اتفاق کرتے اپنے بڑے بھائی کو فون کر کے سارے حالات سے آگاہ کر دیا اور پولیس اسٹیشن میں دی گئی درخواست کے علاوہ میرے بارے میں بھی ساری تفصیل بتا دی ،کہ کس طرح میں بھی اس درخواست میںموجود تھا۔
”چلیں ۔”میں نے اُٹھتے ہوئے پوچھا ؟۔ بیرا بل اور اپنی ٹپ لے کر جا چکا تھا۔ ہاں ثمینہ نے اپنا پرس اُٹھاتے جواب دیا؟
”اب آپ کو کہاں ڈراپ کرنا ہے؟”
پہلے وہ سامان لینا ہے جو میں اس ساری بک بک میں نہیں لے پائی۔ آپ مجھے گو ل چوک میںکہیں ڈراپ کر دیں۔ ثمینہ نے میرے ساتھ چلتے چلتے جواباً بتایا۔
ٹھیک ہے کیوں نا ہم دونوں اکٹھے اپنا اپنا سامان مل کر ایک ساتھ لے لیں میںنے گاڑی کا دروازہ کھولتے اس کی طرف دیکھا او کے کہتی ثمینہ پیچھے بیٹھ گئی۔
میںنے گاڑی تحصیل روڈ کی جانب گھماتے آگے بڑھا دی۔
ایک بات پوچھوں فاروق صاحب؟
”جی ضرور۔” میںنے شیشے کا رُخ پچھلی سیٹ کی جانب کرتے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے اس کے سوال کا جواب دیا۔
آپ کی شادی ہو گئی ہے؟
اتنی جلدی نہیں ابھی تو مجھے اپنے بزنس سے ہی فرصت نہیں جب فرصت ہوئی تو گھر والوں خصوصاً اپنی بڑی بہن سے کہہ دوں گا کیونکہ والدہ کی وفات کے بعد وہی ہمارے سب بہن بھائیوں کے نظام سنبھالتی آ رہی ہیں۔ میں نے ثمینہ کی بات کا تفصیل سے جواب دیا۔
والد صاحب تو حیات ہیں نا؟
نہیں وہ تو والدہ صاحب سے پہلے ہی چل بسے تھے۔ میں نے گاڑی ہوم مارٹ کے باہر پارک کرتے اس کو چلنے کا اشارہ کیا۔
میں نے اپنا ضروری سامان اکھٹا کیا اور کائونٹر پر آ گیا ۔وہ بھی اپنی چیزیں سنبھالتی میرے قریب آ گئی۔ اس نے اپنا سامان بھی میرے سامان کے ساتھ رکھ دیاتھا بل بنا اس نے پرس سے پیسے نکالے مگر میں نے منع کر دیا اور یوں ریسٹورنٹ سے بعد دوسرا بل بھی مجھے ادا کرنا پڑا۔
گاڑی میں بیٹھتے ثمینہ نے میرا شکریہ ادا کیا۔ مجھے اپنا نمبر لکھواتے بولی مجھے آپ کے فون کا انتظار رہے گا۔ اس کے انداز سے مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ وہ لفظ جو وسیم نے اسے تھپڑوں کے دوران اسٹور میں کہے تھے کہیںوہ سب سچ تو نہیں مگر میں کوئی فیصلہ نہ کر پایا۔
”اب کہاں ڈراپ کروں؟” اس بار میرے اندر کا وسوسہ مجھے ترغیب دے رہا تھا کہ میں اسے ٹٹول کر دیکھوں گا ۔مگر میری ہمت نا پڑی اور میں نے اس خیال کو اپنے اندر ہی جذب کر لیا۔ بس یہاں روک لیں۔ کینال ویو کے پہلے بلاک کے کارنر پر اس نے گاڑی روکنے کا کہتے ایک بار پھر مجھے احساس دلایا کہ مجھے آپ کے فون کا انتظار رہے گا۔
جی میں ضرور رابطہ رکھوں گا آپ سے۔ جب تک آپ کی درخواست کا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ وہ تیکھی نظروں سے دیکھتی اپنا پرس اور شاپر سنبھالتی گاڑی سے نیچے اُتر گئی۔ اور میں اس کی نگاہوں کا مفہوم نکالتا آگے بڑھ گیا۔
شام کو گھر واپس آ کر جب میں فارغ ہوکے اپنے کمرے میں آیا تو مجھے ثمینہ کے ساتھ گزارے تمام لمحات یاد آتے گئے۔ جاتے ہوئے اس کی آنکھوں کی ذومعنی وار فتگی نے مجھے فون کرنے پر مجبور کر دیا۔ دوسری طرف سے برجستہ فقرے نے ثمینہ کے بے ساختہ پن کو اُجاگر کرتے کہا ۔ بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے اس کی آواز کے خمار نے میرے کانوں میں ٹھنڈی پھوار پھیلا دی۔ جواباً میں صرف یہی کہہ پایا کہ سارا دن کام کی بھاگ دوڑ میں اپنا ہوش نہیں رہتا دوسری طرف سے ثمینہ نے اُسی لہجے میں جواباً کہا۔
تو پھر کسی اور کے ہوش اُڑانے کی کیا ضرورت تھی۔
میں سمجھا نہیں میرے اندر انجان پن نے کروٹ لی۔
آپ اتنے بھولے مت بنیئے۔ کسی بیچاری پر آپ کو کئی گھنٹے انتظار کی سولی پر لٹکائے رحم تک نہیں آیا۔ کہتے ثمینہ نے فون کاٹ دیا۔ چند پل میں ثمینہ کے اس انداز کا لطف لیتا رہا اسی دوران اس کی طرف سے میسج آیا۔
آپ ناراض ہو گئے کیا؟
میں نے کال کی جو جھٹ اس نے ریسو کرتے کہا جناب اتنا غصہ؟
”بند آپ نے کیا تھا غصہ تو آپ کی طرف سے دکھایا گیا نا۔”
”اچھا جناب آپ کان کھول کر سن لیں مجھ میں انتظار کرنے کی سکت نہیں ہے۔ اس لیے دن میں دو چار بار ہیلو ہائے ضروری ہے۔”
صرف ہیلو ہائے میں نے فقرہ اُچک لیا؟
”ابھی تو ہم نے ایک دوسرے کی مزاج آشنائی سے روشناس ہونا ہے۔” ثمینہ نے شوخی سے جواب دیا۔
”اچھا وہ وسیم کی طرف سے کوئی بات چیت سامنے آئی؟”
”نہیں ابھی تک تو کوئی نہیں مگر میں نے گھر آ کر آپ کا دیا مشورہ بھائی کو بتایا تو انہوں نے بھی اس بات پر اتفاق کیاتھا۔”
مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مطلب کی بات کہاں سے شروع کروں اگر وسیم کی بات صحیح تھی تو بھی مجھ میں اتنی بے باکی کا عنصر موجودنہ تھا کہ میں ثمینہ کو کوئی ایسا ویسا فقرہ کہہ دیتا۔ رات دیر تک میں ا س سے باتیں کرتا رہا۔ پھر گڈ مارننگ کے میسج سے دن کا آغاز ہوا۔ جواب میں مَیں نے بھی ایک رومینٹک میسج اس کو سینڈ کر دیا۔ دن میں ہماری دو تین بار بات ہوئی وسیم کے والد نے دو محلہ کے معززین اکٹھے کیے۔ اور اس کے بھائی کے شو روم پر وسیم کے رویہ کی معافی مانگنے پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر تک باتیں ہوئیں اور آخر کار تھانہ کے معاملے کو سنبھالنے کی بات پر بھائی نے درخواست واپس لینے کی بات قبول کرلی۔ بتا کر ثمینہ نے سنڈے کو سیر کرنے کے لیے میرے ساتھ چلنے کی فرمائش کر دی جو میں نے بغیر کسی عذر کے قبول کر لی۔ پروگرام یہ بنا کر دوپہر کے بعد میں اسے یونیورسٹی روڈ سے لوں گا۔
میںنے ملازم سے جلد آنے کا کہا اور خود ثمینہ کو لینے یونیورسٹی روڈ کی طرف چل پڑا۔ ثمینہ یونیورسٹی والی سٹرک پر کھڑی میرا انتظار کر رہی تھی ۔میںنے گاڑی اس کے قریب روک دی اور وہ پچھلا دروازہ کھولتی اندر بیٹھ گئی۔
کدھر؟
”آپ کو ہی پتہ ہو گا۔” اس نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
میں نے گاڑی کا رُخ کینال ریسٹورنٹ جو اپنی مثال آپ تھا۔شہر سے باہر نہر کے کنارے خوبصورت ماحول کے لیے ۔سنڈے کو یہاں خاصی رونق ہوتی تھی لینچ ٹائم کی وجہ سے ہال بھرا ہوا تھا۔ اس لیے ہم دونوں ریسٹورنٹ کے وسیع لان میں آ گئے یہاں بھی خاصا رش تھا ۔ایک کونے میں ہمیں جگہ مل گئی ۔کینال ریسٹورنٹ بار بی کیو کے لیے بھی مشہور تھا ثمینہ نے باربی کیو ہی لینے کا کہا میں نے آڈر بک کرواکے توجہ ثمینہ کی طرف کر لی۔ سفید سوٹ اور ہلکا میک اپ اس پر قیامت ڈھا رہا تھا۔ وہ مجھے اپنی طرف دیکھتے پا کر شرما کر سمٹ گئی۔
آرڈر ٹیبل پر لگ چکا تھا۔ میں نے پلیٹ اس کے آگے سرکاتے شروع کرنے کا کہا۔
”جی آپ لیں اس نے میری پلیٹ میں سیخ کباب اور تکہ بوٹی رکھتے ہوئے کہا۔”
شکریہ ،کہتے میںنے پلیٹ اپنے آگے کر لی دوران کھانا کوئی بھی خاص بات نہ ہو پائی ۔بل آیا تو اس نے اپنے پرس سے پیسے نکالتے بل ادا کر دیا۔ میں نے روکا تو اس نے یہ کہتے میری بات کاٹ دی کہ سنڈے کی سیر کا پروگرام میرا تھا لہٰذا آج کا سارا خرچ میرے ذمہ ہو گا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے بے تکلفی سے میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔ میرے سارے وجود میں برقی لہر دوڑ گئی۔ میں اس کی آنکھوں کی گہرائی میں ڈوب رہا تھا۔ مگر وہ اتنی تیز تھی کہ یکدم اُٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اور ہم چلتے ہوئے گاڑی کی طرف آ گئے۔ اس نے اگلا دروازہ کھولا اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ میں نے گاڑی آگے بڑھا دی ثمینہ اور میں دن میں کئی بار ایک دوسرے کو فون کرتے تھے یہ سب کچھ بڑی سُست روی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ جو بکواس وسیم نے سپرا سٹور میں دوران بدتمیزی ثمینہ سے کی تھی اس کا عملی طور پر کوئی بھی پہلو میرے سامنے نہ آسکا تھا۔ ابھی تک میں نے اپنے طور پر ثمینہ کے بار ے میں جو معلومات اکٹھی کی تھی اس میں یہی بات سامنے آئی کہ وہ دو جگہوں پر پہلے بھی نوکری کر چکی تھی۔ جو تھوڑا تھوڑا عرصہ چلی جس کی وجہ اس کا کریکٹر تھا۔ جس آفس میں وہ کام کرتی تھی اس کے ایک ملازم کو میں نے تھوڑابہت خرچہ دے کر اس کے بارے میں کافی کچھ پوچھ لیا تھا۔ وہ صرف اپنے کام کی حد تک محدود تھی۔ وسیم نامی اس لڑکے کے بارے میں بھی انفارمیشن مجھے اس کے آس پاس سے مل گئی کہ وہ ثمینہ کے پیچھے کافی دیر سے لگا ہوا تھا اپنے طور پر ثمینہ نے اس کی کئی بار بے عزتی کی مگر وہ اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آ رہا تھا اور یوں اس نے اسے اسٹور میں جا لیا۔ میں کام کے سلسلہ میں شہر سے باہر جا رہا تھا مجھے دو تین دن وہاںرہنا تھا وہاں ثمینہ کا فون آیا تو میں نے یہ بات اس سے کی وہ یکدم خاموش ہو گئی جیسے میرے منہ سے دو تین دن کا سن کر اسے صدمہ پہنچا ہو۔
کیا ہوا چپ کر گئی ہو؟
دوسری طرف سے ثمینہ نے غیریقینی انداز سے پوچھا فاروق آپ سچ کہہ رہے ہو؟
ہاں مگر تم کو کیا ہوا میں نے حیرت سے پوچھا؟
بس یہی تو فرق ہے آپ کے اور میرے احساسات کے درمیان وہ بھرائی ہوئی آواز میں جواباً بولی۔
فاروق آپ سے ملنے کے بعد مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ مجھے تمہارے اور اپنے پن کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اچانک دو تین دن مجھ سے دور رہو گے میں کیسے رہ پائوں گی، کہتے وہ بری طرح رو دی۔ میں اس صورتحال سے گھبرا گیا بڑی مشکل سے اسے کنٹرول کیا اور بتایا کہ میرا جانا بڑا ضروری ہے ۔اگر میں پارٹی کو مطمئن نہ کر پایا تو اپنا لاکھوں کا نقصان ہو جائے گا۔ آپ کو میرا کوئی بھی احساس نہیں لاکھوں کے نقصان کی فکر ہے کہتے اس نے کال کاٹ دی۔
میں اس صورتِ حال کے لیے تیار نہیں تھا کہ ثمینہ مجھے کون سی دنیا کی طرف گھیسٹ رہی تھی۔ اسے روتے سن کر میرے اپنے اندر کچھ ادھر اُدھر ہوتا محسوس ہوا۔ اس کا حتمی فیصلہ تو وہ خود جانتی ہو گی مگر مجھے اپنے بارے میں یہ پتہ چل گیا کہ میں ثمینہ کو چاہنے لگا تھا ۔اسی ادھڑ بن میں اس کا میسج آ گیا، جس میں اس نے لکھاتھا کہ آپ کو صرف ایک دن کی اجازت مل سکتی ہے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ آپ مجھ سے مسلسل رابطے میں رہیں گے ورنہ آپ نہیں جا سکتے۔ اس کے اس حکم پر میںمسکرائے بغیر نہ رہ پایا اور میں نے فون کیا دوسری طرف سے اس کی بھرائی ہوئی آواز ا ئی۔ ”آپ نے میرا میسج پڑھ لیا ہے؟” ہاں بابا ٹھیک ہے ایک دن جائوں گا اور دوسرے دن شام تک واپسی ہو جائے گی۔ میرے اس جواب پر وہ برجستہ تھینک یو سو مچ فاروق کہتے ہنس پڑی۔
اچھا جانے سے پہلے مجھے مل کر جانا!
”ٹھیک ہے میں آفس سے نکلتے آپ کو فون کرتی ہوں ”کہتے اس نے فون بند کر دیا۔
اتنے دنوں کی رفاقت میں آج پہلی بار یہ محسوس ہوا تھا کہ میں خود اس کی طرف کھچاجا رہا تھا۔
چار بجے اس کا فون آیا کہ” میں آفس سے نکل رہی ہوں۔”
آج پہلی بار میں نے اسے اپنے آفس آنے کی دعوت دے دی۔
ٹھیک ہے آپ قاسم سے کہہ دو کہ مجھے کبابش والے روڈ سے آ کر لے جائے میں وہاں رُک کر انتظار کرتی ہوں کہتے اس نے فون بند کر دیا۔
میںنے اپنے ڈرائیور کوکہا کہ اپنی باجی ثمینہ کو کبابش والے روڈ پر سے بیٹھا کر آفس لے آئے۔ وہ بڑا اچھا انسان تھا دو سال سے میرے پاس کام کرتا آ رہا تھا۔ ایماندار ہونے کے ساتھ ساتھ وفادار بھی تھا۔ دو چار بار میں اسے اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا اور وہ ثمینہ کو باجی کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔
اس کے جاتے ہی میںنے ملازم کو دہلی سویٹ سے پیزہ وغیرہ لانے کو کہا اور خود ثمینہ کا انتظار کرنے لگا۔
قاسم کو واپس آتے زیادہ دیر نہ لگی تھی ثمینہ اس کے ہمراہ اوپر آفس میں آ گئی۔ میرا آفس میرے ذوق کی عکاسی کرتا تھا۔ میں نے اسے ہر طرح کی سہولت سے مزین کر رکھا تھا۔ ثمینہ چاروں جانب کا جائزہ لیتے صوفہ پر بیٹھ گئی میں نے اس کی روتی آنکھوں کو غور سے دیکھا جن کی سرخی اس بات کی غمازدکھائی دی کہ وہ روتی رہی تھی۔ قاسم اُسے چھوڑ کر نیچے چلا گیا تھا میں اپنی چیئر سے اُٹھ کر اس کے پاس دوسرے صوفہ پر آن بیٹھا۔ وہ بے اختیار ہوتے میرے قریب کھسک آئی۔
”فاروق ایک بات کروں۔” اس نے یونہی میرے ساتھ لگے لگے دھیمی آواز میںکہا۔
”ہاں کہو میں سن رہا ہوں ۔”میں نے پیار سے اُسے سمیٹتے جواب دیا۔
آپ کا انتخاب میں نے بڑا سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ ابھی ہم دونوں بڑے اچھے دوستوں کی طرح ایک دوسرے سے ملتے آ رہے ہیں۔ اور جس طرف ہم چل رہے ہیں۔ یہ راستہ بہت سارے معاشرتی تقاضوں کی طرف جاتا ہے۔ میں آپ کو یہ بتا دوں کہ کہیں آپ یہ نہ سوچ لیجئے گا کہ میں آپ کے اتنے بڑے بزنس سے متاثر ہو کر آپ کی طرف دیوانہ وار بھاگی چلی آ رہی ہوں۔ ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے کہ اس کا ساتھی معاشرہ میں اس کا بھرم اپنے مضبوط کندھوں پر اُٹھا کر قدم قدم اس کے ساتھ چلے۔ ابھی تو میں سنبھل سکتی ہوں۔ کیونکہ میں نے گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے آج تک اپنی عزت کی ہر طرح سے حفاظت کی ہے ،اور اپنے خاندان کے وقار کو ملحوظِ خاطررکھا ہے۔ لوگوں کے درمیان رہتے مجھے دو سال کا عرصہ بیت رہا ہے اتنا تو ادراک ہو چکا ہے کہ صحیح اور غلط کے کیا معنی ہوتے ہیں۔ میرے آگے پیچھے بہت سے ایسے لوگوں کو جستجو رہی ہے میری ،جو مجھے اپنی چمک دمک اور طرح طرح کے خوابوں میں اُلجھا کر اپنے مقاصد کا مدوا چاہتے تھے۔ مگر ہر قدم پر اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کی ہے۔آپ سے پہلی ملاقات میں مجھے یہ لگا کہ آپ میری ثابت قدمی کا انعام ہیں۔ آپ کی حوصلہ افزائی اور آپ کی شرافت نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ جس کی میں دل سے قدر کرتی ہوں۔ یہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں کس طرح یوں بے باکی سے آپ کی طرف بھاگی چلی آ رہی ہوں۔بہر حال میں آپ پر واضح کر دوں کہ میری زندگی میں آپ کی اہمیت انتہائی نازک موڑ پر آ رہی ہے ،کہہ کر وہ الگ ہٹ کر بیٹھ گئی میںصوفہ سے اُٹھ کر دوبارہ اپنی آفس چیئر پرجا بیٹھا۔ ہم دونوں اپنی اپنی جگہ پر خاموش بیٹھے تھے۔ آفس میں صرف اے سی چلنے کی ہلکی آواز میں میرا دل ثمینہ کی باتیں سن کر عجب کیفیت میں دھڑک رہا تھا۔ ملازم نے پیزا وغیرہ اور کولڈ ڈرنک رکھتے چائے کا پوچھا تو ثمینہ نے منع کر دیا۔
”اچھا جناب مجھے پتہ ہے آپ کو بھوک لگی ہو گی پہلے آپ یہ لیں ،اور ہاں آپ نے میرا انتخاب کیا میں شکر گزار ہوں۔ میں نے پیزا اُس کی طرف بڑھاتے ہنس کر اس کے سنجیدگی میں گھرے چہرے پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کی۔ اُس نے ایک ٹکڑا اُٹھاتے میری پلیٹ میں رکھتے میری آنکھوں میں دیکھا اور نظریں نیچی کر لیں۔
”اچھا اس معاملہ پر بعد میں غور کریں گے پہلے آپ اس کو کھائیں، میں نے اس کی توجہ ہٹاتے چکن پیس اس کی طرف کرتے کہا۔” آپ کو پتہ ہے نا میں زندہ رہنے کے لیے کھاتی ہوں۔” کہتے اس نے تھوڑا سا ٹکڑا لیا اور پلیٹ میری جانب موڑ دی۔
جب تک وہ میرے آفس میں بیٹھی رہی اسی طرح کی باتیں زیر غور رہیں پھر اس نے جانے کے لیے کہا تو میں نے اپنے ڈرائیور سے اُسے گھر ڈراپ کرنے کا کہتے پٹرول ڈلوانے کی بھی یاد دہانی کروائی۔
ثمینہ کے جانے کے بعد پہلی بار میں نے اس کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ شادی تو بہر صورت مجھے کرنا تھی۔
باجی صاحبہ بھی کئی بار مجھے اس بارے میں سنجیدگی سے کہہ چکی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب میں ان کو یہ بات بتا ہی دوں سومیںنے ایک دن ثمینہ کے بارے میں اپنی پسند کا اظہار ان سے کر دیا۔ میرے منہ سے یہ سن کروہ بہت خوش ہوئیں اور اس کے بارے میں معلومات لینے لگی۔ اس کی نوکری کا سن کر انہوںنے نوکری کی نفی کی جواباً میں نے ان کو مطمئن کر دیا کہ شادی کے بعد وہ بھلا نوکری کرے گی کیا؟ انہوں نے ثمینہ کے گھر میرا رشتہ لے کر جانے کی حامی بھر لی۔ میں نے اس کا تذکرہ ثمینہ سے کیا تو وہ بھی میرے منہ سے یہ بات سن کر شرما گئی۔ ثمینہ نے گھر جا کر اپنی والدہ سے میرا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ لوگ ہمارے گھر آئیں گے۔ اس بات کو دو ہفتے گزر گئے مگر باجی نے کوئی بات نہ کی ثمینہ کے گھر جانے کی۔ میںنے باتوں باتوں میں انہیں یاد کرایا تو انہوںنے جواباً بتایا کہ تمہارے بھائی آئیں گے تومیں ان سے مشورہ کر کے پھر جائوں گی۔ باجی جان وہ تو دو ہفتہ بعد پاکستان آئیں گے تب تک آپ بھابھی کو ساتھ لے کر کم از کم لڑکی اور اس کے گھر والوں کو تو دیکھ لیں۔ کچھ سوچ کر باجی نے جانے کی حامی بھر لی۔ میں نے ثمینہ کو فون کر کے بتا دیا کہ شاید کل میری بہن اور بھابھی آپ کے گھر آئیں۔ ثمینہ اپنے اندر کی خوشی دباتے بولی ۔
واقعی فاروق جی؟
ہاں میں نے اسے یقین دلاتے جواب دیا۔
دوسرے دن بڑے بھائی امجد کی بیگم نازیہ اور باجی کو میں ان کے گھر کے سامنے اُتار کر واپس چلا گیا۔ سارے راستے میں اُلجھن میں مبتلا رہا کہ دیکھیں دونوں کو ثمینہ کیسی لگتی ہے۔ تقریباً دو گھنٹے بعد فون آیا کہ ڈرائیور کے ہاتھ گاڑی بھجوا دو۔
میں نے ان کو لانے کے لیے گاڑی بھجوا دی۔ باجی نے گھر آ کر ثمینہ کو پسند کرنے کی تائید کر دی اور اس کے گھروالوں کے بارے میں بھی انہوں نے پسندیدگی کا اظہار کیا۔ ساتھ میں ثمینہ کی والدہ کے بارے میں بتایا کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی جلد کرنے کی بات کر رہی تھی۔
تو پھر میں نے اپنی بہن کا اندیہ لیا؟
تمہارے بھائی جان آ جائیں تو کوئی فیصلہ ہو گا کہہ کر وہ خاموش ہو گئی۔ رات آ کر میں نے ثمینہ کو خوشخبری سنائی تو وہ بے حد خوش ہوئی اور اس نے اپنے گھروالوں کی رپورٹ پیش کرتے مجھے بتایا کہ بھابھی لوگ بھی آپ کے گھر جلد آنے والے ہیں۔ اس لیے آپ بھی تیار رہیں کیونکہ آپ کوبھی پسند کر ہی لیں گے میرے گھر والے ۔ ثمینہ نے کہا۔
اچھا چھوڑو اب یہ بتائو کہ شادی میں کتنے دن ڈالو گی؟
میں نے اسے چھیڑا؟
واہ جی بڑی جلدی ہے کہتے اس نے سلسلہ کاٹ دیا۔
باجی کے میاں ہفتہ پہلے ہی گھرواپس آ گئے۔ اس دوران آ کر وہ لوگ مجھے اور ہمارا رہن سہن گھر بار دیکھ کر پسند کر گئے۔ جاتے ہوئے جلد شادی کرنے کی بات بھی ہمارے کان میں ڈال گئے تھے۔ دونوں طرف سے ہماری شادی کی بات چل رہی تھی۔ آخر کار تاریخ طے پا گئی۔ میں نے دل کھول کر اپنی شادی کی تیاری شروع کر دی۔ سٹی کالونی والا گھر جو کرایہ پر اُٹھا رکھا تھا اس خالی کروا کر اسے ٹھیک کروایا جا رہا تھا۔ سب گھروالوں کا خیال تھا کہ میری رہائش مکمل طور پر اُس گھر میں ہی رہے گی۔ گھر کے لیے ہر چیز نئی خریدی جا رہی تھی۔ بڑی دھوم دھام سے ثمینہ میری بیوی بن کر میرے گھر آ گئی۔
شادی کو کئی ماہ بیت گئے تھے اُس نے نوکری کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ گھرداری اور وفا داری کی مثال ثابت ہوئی ثمینہ۔ جو بکواس اس کے بارے میں اُس بدبخت وسیم نے کی تھی اس کا شبہ تک نہ تھا اس کے آس پاس۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ماں اور مجھے باپ کا مقام عطا کر دیا۔ میرے گھر والے اس کا جی جان سے خیال رکھ رہے تھے۔ باجی ثمینہ کو ہفتہ میں ایک بار ضروری لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتی ۔گھر میںکام کرنے کے لیے ایک ملازمہ اور مستقل طور پر جو شروع سے ہمارے پاس ملازمہ کام کرتی آرہی تھی کہ اس کی چھوٹی بیٹی شبانہ کو ثمینہ کے پاس رکھ لیا تھا۔
جب سے ثمینہ کی شادی مجھ سے ہوئی تھی اللہ پاک نے میرے نصیب کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا کر دی تھی۔ ڈلیوری میں دو روز رہ گئے تھے۔ اس لیے میں نے ہسپتال میں کمرہ لے لیا تھا۔اور میںزیادہ وقت اُس کے پاس ہی رہ رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوئی اور ہمیں بیٹی مل گئی ۔دونوں گھروںمیں بے انتہا خوشی کی فضا نمایاں تھی۔ تین دن بعد ہم لوگ اپنے گھر آ گئے۔ میں زیادہ وقت گھر پر ہی رہ کر ثمینہ اور اپنی بیٹی جس کا نام مریم رکھا تھا۔ کی دیکھ بھال میں لگا رہتا۔ چالیس یوم بعد ثمینہ مریم کو اُٹھائے گھر سے باہر ہم مریم کو ملانے ثمینہ کی والدہ کے پاس جا رہے تھے۔ گاڑی میں بیٹھی ثمینہ میری طرف تشکر آمیز نظروں سے دیکھتی مریم کو سہلا رہی تھی ۔مکان سے پچھلی گلی کے کارنر والے ا سٹور کے باہر وسیم دو لڑکوں کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا۔ ہم پر نظریں پڑتے ہی اس نے حقارت سے زمین پر تھوکا۔ غصہ تو مجھے بہت آیا مگر وہ پرلے درجے کا گھٹیا انسان تھا۔ اس لیے میں اس کے منہ نہیں لگنا چاہتا تھا۔ ثمینہ کے چہرے پر بھی ناگواری کے آثار تھے۔
ثمینہ کے گھر والے باہر گیٹ پرہی ملے جو ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ پھر میں ثمینہ سے مریم کو لیتے اندر آ گیا بڑااہتمام کیا تھا انہوں نے، مریم کو سارا گھر اُٹھائے پھررہا تھا۔ رات گئے تک ہم ادھررُکے رہے، بہت روکا انہوں نے کہ صبح چلے جانا مگر تقدیر کے لکھے کو کون مٹا سکتا تھا۔ میں مریم کو گود میں اُٹھائے ثمینہ کے آگے آگے گھر سے نکلا اور گاڑی میں آ بیٹھا ثمینہ سب سے مل کر باہر نکلی ابھی گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھنے ہی لگی تھی کہ یکدم وسیم سامنے آ گیا اس کے ہاتھ میں تھامے پستول نے یکے بعد دیگر آگ اُگلنا شروع کر دی میرے سامنے ثمینہ کے سر کے پرخچے اُڑ گئے۔ پھر اس نے مجھ پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ اسی دوران مریم میرے پیروں میں آن گری اور وہ فائرنگ کرتا فرار ہو گیا۔ آس پاس کے سارے لوگ باہر نکل آئے۔ ثمینہ تو گرتے ہی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ ایک گولی میرے کندھے پر اور دوسری ٹانگ میں لگی تھی مریم نیچے گرنے کی وجہ سے محفوظ رہی۔ مجھے ہسپتال لے جایا گیا اپریشن کے بعد میں تو بچ گیا اور ثمینہ ہمیشہ کی گہری نیند سو گئی۔ اُس بدبخت نے خود ہی گرفتاری دے دی تھی۔وہ جیل میں ہے ۔
مریم دوسرے سال میں لگ چکی ہے میں ثمینہ کی یادوں کے سہارے دن کاٹ رہا ہوں۔ انشاء اللہ میں وسیم کو سزائے موت دلوا کر رہونگا۔
میرے سسرال والے میری سب سے چھوٹی سالی کے ساتھ میرا رشتہ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ کیونکہ مریم کو جو محبت اُس کی حقیقی خالہ دے سکتی ہے وہ شائد اُسے کوئی دوسری عورت نہ دے پائے۔
٭٭…٭٭

Leave a comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اردو ادب، شاعری اور نثر – سب ایک جگہ
آپ کے ذوق کی دنیا، بس ایک کلک کی دوری پر

Get The Latest Updates

Subscribe to our newsletter to get our newest articles instantly!

Copyright 2025 . All rights reserved Huroof powered by Arkanteck.