Poetry

غزل کی شام محمد رفیع کے نام

There is evidence that the food industry designs ultra-processed foods to be highly rewarding, to maximize craveability and to make us want more and more and more

Share
Share

زمانے بیت گئے مگر محمد
رفیع آج بھی اپنی آواز کی ساحری کے زور پر ہرکسی کے دل پر اپنی حکومت جمائے ہوئے ہیں ، ان کے گائے ہوئے بھجن ، اورنغموں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ آج ہم آپ کے لئے کچھ مشہورو معروف شاعروں کی ایسی غزلیں لے کر حاضر ہوئے ہیں جنہیں محمد رفیع نے اپنی آواز دی ہے اور ان غزلوں کے حسن میں لہجے اور آواز کا ایسا جادو پھونکا ہے کہ آدمی سنتا رہے اور سر دھنتا رہے ۔

زمانے بیت گئے مگر محمدرفیع آج بھی اپنی آواز کی ساحری کے زور پر ہرکسی کے دل پر اپنی حکومت جمائے ہوئے ہیں ، ان کے گائے ہوئے بھجن ، اورنغموں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ آج ہم آپ کے لئے کچھ مشہورو معروف شاعروں کی ایسی غزلیں لے کر حاضر ہوئے ہیں جنہیں محمد رفیع نے اپنی آواز دی ہے اور ان غزلوں کے حسن میں لہجے اور آواز کا ایسا جادو پھونکا ہے کہ آدمی سنتا رہے اور سر دھنتا رہے ۔

معروف خاتون عطیہ فیضی سے بھی اقبال کی دوستی رہی جو خود بھی تعلیم کی غرض سے لندن میں مقیم تھیں اور جنھوں نے دانشورانہ ادبی و علمی مذاق رکھنے والی اک ماڈرن ہندوستانی خاتون کی حیثیت سے اعلیٰ سماجی حلقوں میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ مزاجوں میں مطابقت کی وجہ سے دونوں میں قربت پیدا ہوئی۔ لندن سے واپسی کے بعد بھی دونوں میں خط و کتابت جاری رہی۔ اردو شاعری پر بہرحال عطیہ کا یہ احسان ہے کہ انھوں نے اقبال کو ریاست حیدرآباد کی ملازمت سے شدّومد کے ساتھ روکا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ دربار داری اقبال کی بے پناہ خلاقانہ صلاحیتوں کے لئے سم قاتل ثابت ہو گی۔
اقبال نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ 1890ء کے ایک  طرحی مشاعرہ میں اقبال نے ’’موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے،  قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے‘‘ پڑھ کر کم عمر  میں  اس وقت کے جیّد شعراء کو چونکا دیا۔ اس کے بعد اقبال انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگے۔ 1900ء میں انجمن کے ایک جلسے میں انھوں نے اپنی مشہور نظم  ’’نالۂ یتیم‘‘ پڑھی جو اپنے اچھوتے انداز اور کمال سوزوگداز کی وجہ سے اتنی مقبول ہوئی کہ اجلاس میں یتیموں کی امداد کے لئے روپیوں کی بارش ہونے لگی اور آنسوؤں کے دریا بہہ گئے اور نظم کی ایک ایک مطبوعہ کاپی چار روپے میں فروخت ہوئی۔ اس کے بعد اقبال کی نظمیں انجمن کے جلسوں کی زینت بن گئیں۔ یکم اپریل 1904ء میں ادبی رسالہ ’’مخزن‘‘ کا اجراء ہوا تو اس میں اقبال کی نظم ’’ہمالہ‘‘ شائع ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی ان کی نئے انداز کی نظموں اور غزلوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا اور اقبال شعرائے ہند کی صف اوّل میں ممتاز مقام پر فائز ہو گئے۔

Leave a comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اردو ادب، شاعری اور نثر – سب ایک جگہ
آپ کے ذوق کی دنیا، بس ایک کلک کی دوری پر

Get The Latest Updates

Subscribe to our newsletter to get our newest articles instantly!

Copyright 2025 . All rights reserved Huroof powered by Arkanteck.