”دیکھوزویہ میں تمہیںآخری بار کہہ رہی ہوں میری بات کو اچھی طرح اپنے ذہن میں لو مجھے جلد ازجلد بچہ چاہیے کچھ بھی کرو۔” پروین آج اپنی بہو پر برس رہی تھی آج وہ بہت غصے میں تھی دو برس ہوگئے شادی کو لیکن بچے کاکوئی نام ونشان نہیں تھا ۔
”کمبخت کہیں کی پتا نہیں میرے معصوم بیٹے نے کون سا گناہ کیا جس کی اسے اتنی بڑی سزا مل رہی ہے کہیں جاتی بھی نہیں ہے۔ ہمارا پیچھا بھی نہیں چھوڑتی ہے منحوس کہیں کی کان کھول کے سن لے مجھے بچہ چاہیے اگر نہ ہوا تو پھر میں تیرے ساتھ کیا کروں گی۔ یہ تم نہیں جانتی …یاد رکھنا !!” اپنی بات ختم کر کے وہ تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر کمرے میں چلی گئی۔
٭…٭…٭
زویہ وہیں کھڑی رو رہی تھی پروین کا تو یہ ہر روز کا کام تھا ۔مگر پہلے کبھی بھی زویہ اتنی روئی نہیں تھی مگر آج اس کے دل کو بہت ٹھیس پہنچی تھی۔ اس میں اس کا کیا قصور تھا سوائے رونے کے وہ اور کربھی کیا سکتی تھی۔ بچہ پیدا کرنا اس کے بس میں تھا یہ تو اﷲ تعالی کی دین ہے ۔زویہ نے تھوڑی دیر رونے کے بعد اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے ایک لمبی طویل سانس لی اور ہال میں پڑے صوفے پر بیٹھ گئی ۔اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر عاجزانہ لہجے میں دعا کی ۔”اے میرے اﷲ تجھے تیرے حبیب کا واسطہ مجھ پر رحم فرما تو بڑا رحم کرنے والا ہے تیرے سوا میری دعا سننے والا کوئی نہیں میرے صبر کو اور نہ آزما۔ یہ کہہ کر زویا نے دل مضبوط کیا اور کبھی ہمت نہ ہارنے کا فیصلہ کیا اور دل میں یہ ارادہ بھی کر لیا کہ آج کے بعد وہ ہر وقت درود شریف پڑھے گی۔ صبح وشام رات ہر وقت کیوں کہ اس نے ٹی وی پر اذان کے بعد سنا تھا کہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اﷲ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمت فرمائے گا ۔یہ نبی پاکۖ نے فرمایا تھا اور پانچ وقت کی نماز بھی پڑھے گی اور کبھی ناغہ نہیں کرے گی۔ یہ ارادہ پکا کرنے کے بعد وہ پھر کام کرنے میں لگ گئی زویہ بہت صبر اور ہمت رکھنے والی لڑکی تھی۔ اس کے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا تھا کبھی اس نے کسی کو نہیں بتایا اپنے ماں باپ کو بھی نہیں۔
آصف پروین کا اکلوتا بیٹا تھا پڑھا لکھا اور خوبصورت نوجوان تھا ماں سے بہت محبت کرتا تھا۔ مگر ماں کی طرح ہر وقت زویہ سے لڑتا جھگڑتا رہتا تھا جو ماں کہتی وہی کرتا تھا ۔دونوں ماں بیٹا پڑھے لکھے کم عقل تھے جن کو یہ معلوم نہیں تھا کہ بچہ پیدا کرنا زویہ کے بس میں نہیں ہے یہ تو خدا کے بس میں ہے وہ تو بے بس ہے ۔
٭…٭…٭
پروین کا خاوند پانچ سال پہلے ایکسیڈنٹ میں اﷲ کو پیارا ہوگیا تھا ۔جس کی وجہ سے پروین ہر وقت لڑائی جھگڑاکرتی رہتی تھی وہ اپنے آپ کو اکیلا سمجھتی تھی۔ جس کی وجہ سے اس کے مزاج میں بہت چڑچڑا پن آگیا وہ اپنے خاوند ناصر سے بہت محبت کرتی تھی اسے گھر کی کوئی بھی چیز اچھی نہیں لگتی تھی۔ محمد ناصر بہت سی کپڑے کی فیکٹریوں کا مالک تھا اس کے مرنے کے بعد ساری فیکڑیاں اور کاروبار آصف نے سنبھال لیا تھا ۔پروین کے پاس ایک خوبصورت کوٹھی کار اور بے پناہ دولت ہونے کے باوجود دل کا سکون نہیں تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ ہمارے گھر میں بچے ہوں شورشرابا ہو جن سے اس کا دل لگے وہ اتنے بڑے محل نما گھر میں وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتی تھی۔شام کو جب آصف گھر آیا تو سیدھا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنی ماں کے کمرے میں گیا تو دیکھا ماں بہت غصے میں بیٹھی ہوئی تھی۔ آصف جب بھی گھر آتا تو پہلے ماں کے کمرے میں جاتا پھر زویہ کے پاس آتا ۔پروین نے آصف کو دیکھ کر ایک لمبی سانس لی …طیش بھرے انداز میں۔”آصف بیٹا آج میں نے زویہ کو صاف صاف بتا دیا ہے ”آصف ماں کے پاس بیٹھ کر کیابتا دیا؟
”یہ ہی کہ مجھے بچہ چاہیے صرف بچہ اور جلدی چاہیے اگر ایسا نہ ہوا تو اسے ایسی سزا ملے گی۔ وہ ساری زندگی یاد رکھے گی۔ دو سال ہوگئے ابھی تک کچھ بھی نہیں تم بھی اسے صاف صاف کہہ دینا ۔”
آصف کھڑا ہوا ”آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں امی جان میں تو اسے کئی بار کہہ چکا ہوں آپ فکر نہ کریں میں پھر کہہ دوں گا ”یہ کہہ کر آصف کمرے سے باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
پروین نے ایک سانس لیا اور کہا اے میرے اﷲ پتہ نہیں کب ا س گھر میں خوشیاں اور رونق آئے گی اسی طرح دن گزر تے گئے ۔آصف نے ماں کے کہنے پر کئی بار زویہ سے لڑائی جھگڑا کیا اسے مارا بھی گالیاں بھی دیں۔ مگر زویہ نے اُف تک نہیں کی بس صبر وشکر کیا پانچ وقت کی نماز اور دن رات ہر وقت درود شریف پڑھتی رہی۔ اور تہجد کے نفل بھی پڑھتی اور ہر وقت رو رو کر اﷲ تعالیٰ کے آگے دعائیں کرتی تھی۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا اور چھ ماہ گزر گئے ایک دن پروین نے کہا ”آصف بیٹا کسی دن زویہ کا چیک اپ تو کروا لو چار ماہ ہوگئے ہیں چیک اپ کروائے ہوئے شاید اﷲ نے ہماری دعا قبول کر لی ہو آج کل تو زویہ بہت عبادت کر رہی ۔ہے ٹھیک ہے امی جان میںآج شام کو ہی زویہ کو کلینک لے جاؤں گا ۔یہ کہہ کر آصف چلا گیا ۔”اے میرے رب اب تو ہماری دعا قبول کر لے ” ہمیں بھی ایک ننھا مّنا سا بچہ دے دے ہمارے اس سونے گھر میں بھی رونق آجائے ۔تجھے تیرے حبیب کا واسطہ ۔شام ہوئی تو آصف زویہ کو کلینک لے کر گیا ڈاکٹر نے تسلی سے زویہ کا چیک اپ کیا پھر ڈاکٹر نے خوش لہجے میں آصف سے کہا آصف صاحب مبارک ہو آپ کی بیوی کو حاملہ ہوئے تین ماہ ہوگئے ہیں ۔یہ سن کر آصف کی خوشی کی انتہا نہ رہی اس نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو قابو میں کیا اور جلد ہی زویہ کو گھر لے کر آگیا۔ اور خوشی کی یہ خبر اپنی ماں کو سنائی یہ خبر سن کر پروین اتنی خوش ہوئی کہ خوشی کے مارے ا سکی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
آصف اور پروین جسے اتنی گالیاں دیتے تھے۔ جس پر صبح وشام ظلم کرتے تھے ۔آج ان کے دل میں زویہ کے لیے صرف محبت ہی محبت تھی زویہ کا صبر اور عبادت رنگ لائی ۔
٭…٭…٭
اﷲ کو اس کی عبادت پسند آئی اور اس نے زویہ کی دعائیں قبول کرلیں ۔آج زویہ بہت خوش تھی کہ اﷲ نے ا سکی فریاد سن لی ا س کی آنکھوںسے خوشی کے آنسو نکل رہے تھے ۔ اس نے اﷲ سے یہ وعدہ کر لیا تھا کہ جس عبادت سے مجھے اتنی خوشیاں ملی ہیں اس عبادت کو میں ساری زندگی نہیں چھوڑوں گی۔ پروین نے آگے بڑھ کر زویہ کو گلے لگایا ۔اس کے آنسو صاف کیے اور ماتھا چوما اور کہا ” بیٹی ہمیں معاف کر دو ہم دونوں ماں بیٹے نے تم پر بہت ظلم کیے ہیں ”ہمیں معاف کر دو بیٹی یہ سن کر زویہ نے خوشی سے کہا یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں امی جان میں نے تو کبھی آپ کی باتوں کا برا نہیں منایا۔ یہ سن کر آصف کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ زویہ کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔
پروین نے زویہ سے پوچھا کے یہ سب کیسے ہوا تم نے ایساکیا کیا جو اتنی جلدی تمہاری دعا قبول ہوگئی۔ زویہ نے پروین کو اس عبادت کے بارے میں سب کچھ بتایا یہ سن کرآصف اور پروین کے دل میں خوف خدا آیا تو انہوں نے پکی توبہ کر لی اور یہ فیصلہ کر لیا کہ آج کے بعد وہ بھی زویہ کی طرح عبادت کریں گے۔ نو ماہ بعداﷲ تعالیٰ نے چاند سا بیٹا دیا زویہ پروین اور آصف نے اﷲ پاک کی ا س نعمت کا شکریہ ادا کیا اور ہنسی خوشی رہنے لگے ۔
جو بھی میری یہ کہانی پڑھے ان سے میری یہ گزارش ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنا ہو یا کوئی دعا قبول کروانی ہو تو پھر زویہ کی طرح عبادت کریں ایسا ضرور کر کے دیکھئیے گا ۔
٭٭…٭٭
Leave a comment