خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
اقبال اک عہد شناس اور عہد ساز شاعر تھے۔ ان کی شاعری اک مخصوص نظام فکر سے روشنی حاصل کرتی ہے، جو انھوں نے مشرق و مغرب کے سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور روحانی حالات کا گہرا مشاہدہ کرنے کے بعد مرتب کیا تھا اور محسوس کیا تھا کہ اعلیٰ انسانی قدروں کا جو زوال دونوں جگہ مختلف انداز میں انسانیت کو جکڑے ہوئے ہے اس کا حل ضروری ہے۔ خصوصاً مشرق کی بدحالی ان کو مضطرب رکھتی تھی اور وہ اس کے اسباب سے بھی واقف تھے لہٰذا انھوں نے انسانی زندگی کو سدھارنے اور اسے ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے اپنی شاعری کو وسیلہ بنایا۔ اقبال عظمت آدم کے علمبردار تھے۔ اور وہ کسی بخشی ہوئی جنت کی بجائے اپنے خون جگر سے خود اپنی جنت بنانے کے عمل کو زیادہ امکان پرور اور زیادہ حیات آفریں سمجھے تھے۔ اس کے لئے اس کا نسخہ تجویز کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا ’’اقوام مشرق کو یہ محسوس کر لینا چاہئے کہ زندگی اپنی حویلی میں کسی قسم کا انقلاب نہیں پیدا کر سکتی جب تک اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ پیدا ہو اور کوئی نئی دنیا اک خارجی وجود نہیں حاصل کر سکتی، جب تک اس کا وجود انسانوں کے ضمیر میں متشکّل نہ ہو۔‘‘ وہ مغرب کو روحانی طور پر بیمار تصور کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس کی اصلاح اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اس کی عقل ہوا و ہوس کی غلامی سے نجات حاصل کرکے ’’ادب خوردۂ دل‘‘ نہ ہو جائے۔ اور اس کے لئے سوز عشق ضروری ہے۔ اقبال کا عشق اردو شاعری اور تصوف کے روایتی عشق سے مختلف ہے۔ وہ ایسے عشق کے قائل تھے جو آرزوؤں میں وسعت پیدا کر کے حیات و کائنات کو مسخر کر سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ عشق کو عمل سے استحکام ملتا ہے جبکہ عمل کے لئے یقین کا ہونا ضروری ہے اور یقین علم سے نہیں عشق سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ عشق، علم اورعقل کو لازم و ملزوم اور ایک کے بغیر دوسرے کو ادھورا سمجھتے تھے۔ عشق کے علاوہ اقبال کی دوسری اہم شعری اصطلاح ’’خودی‘‘ ہے۔ خودی سے اقبال کی مراد وہ اعلیٰ ترین انسانی صفات ہیں جن کی بدولت انسان کو اشرف المخلوقات کے بلند درجہ پر فائز کیا گیا ہے۔ اس خودی کو پیدا کرنے کے لئے جذبۂ عشق ضروری ہے کیونکہ عشق ہی خودی کی تکمیل کرتا ہے اور دونوں اک دوسرے سے قوت حاصل کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک عشق اورعلم کی آمیزش سے فرد کی اصلاح اور معاشرہ کی تعمیر کا کام مکمل ہوتا ہے۔
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
(عقیل احمد صدیقی)
’’اقبال کی شاعری تصوّرات کی شاعری ہے۔ لیکن جو صفت تصوّرات کو شاعری بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اقبال تشبیہوں، استعاروں اور مخصوص علامتوں کے ذریعہ اپنے افکار کو مخصوص شکل میں پیش کرتے ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ افکار کے حسّی متبادل تلاش کئے جائیں تا کہ افکار کو جذبہ کی سطح پر لایا جا سکے اور فکر محض خشک فکر نہ رہ کر اک حسّی اور ذہنی تجربہ بن جائے اور اک مخصوص نوعیت کے ادراک کی شکل اختیار کر لے۔ یہی بات کم و بیش علامتوں کے انتخاب میں بھی سامنے آتی ہے۔‘‘
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
Leave a comment