Novels

وقت کے پرانے پیمانے

There is evidence that the food industry designs ultra-processed foods to be highly rewarding, to maximize craveability and to make us want more and more and more

Share
Share

وقت کے ساتھ ساتھ چیزوں کے پیمانے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے پس پشت  ضرورت اور حالات کی  تبدیلیاں کارفرما ہوتی ہیں۔ تبدیلی وقت کا خاصہ ہے اور اس  وصف  سے خود وقت بھی مستثنیٰ نہیں رہا ہے۔چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ وقت ناپنے کے پیمانوں میں بھی بدلاؤ آتا رہا ہے۔ وقت کو ناپنے کی انسان کو  سب سے پہلےکب ضرورت پڑی اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وقت کو ناپنے کا سلسلہ  قدیم زمانے سے جاری ہے،  یہ دیگر بات ہے کہ پہلے زمانے میں  آج کی طرح وقت کو ناپنے کا   کوئی یکساں عالمی پیمانہ نہیں تھا۔ مختلف زمانوں  اور خطوں میں اس کے لیے مختلف پیمانے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔

پہر بھی وقت ناپنے کا ایک اہم پیمانہ تھا ۔گھڑی اور پل وقت کی چھوٹی چھوٹی اکائیاں تھیں جو فلکیات اور علم نجوم میں تو بہت کارآمد تھیں لیکن عوام الناس کی روزمرہ زندگی میں اتنی افادیت نہیں رکھتی تھیں۔ انھیں وقت کے زیادہ بڑے پیمانوں کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے دن اور رات کے چوبیس گھنٹوں کو  آٹھ حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر حصے کو پہر کا نام دیا گیا۔ ایک پہر آٹھ گھڑی یعنی کم و بیش تین گھنٹوں پر مشتمل ہوتا تھا۔  اس طرح چار پہر دن کے اور چار پہر رات کے ہوتے تھے۔ گھڑی کا دورانیہ ہمیشہ یکساں یعنی چوبیس منٹ کا ہوتا تھا  جبکہ پہر کا دورانیہ کسی مقام کے محل و وقوع اور وہاں کے موسم کے حساب سے کم و بیش ہوتا رہتا تھا۔ اس صورت میں گھڑی اور پہر میں کس طرح موافقت پیدا کی جاتی تھی، اس کے بارے میں  معلومات کے فقدان کی وجہ سے وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔  ہر پہر کے اختتام پر وقت کے اعلان کے لیے  نقارے پر چوٹ پڑتی تھی  یا نوبت بجائی جاتی تھی۔طلوع آفتاب سے نصف النہار  تک دن کے دو پہر شمار کیے جاتے تھے اس لیے نصف النہار کو دوپہر کہا  جاتا تھا

دہلی کے سلطان فیروز شاہ تغلق (دورِحکومت 1351 تا 1388 ء(نے چودھویں صدی کے اواخر میں وقت ناپنے کے لیے  یہ پیمانہ اختیار کیا۔ بابر اور دیگر مغل بادشاہوں نے بھی فیروز شاہ تغلق کی تقلید کی۔ فیروز شاہ  تغلق کے عہد میں وقت کے اعلان کے طریقے میں اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ نقاروں کی جگہ گھڑیال نے لے لی۔ اس مقصد سے فیروز شاہ نے فیروزآباد (دہلی) میں واقع اپنے محل میں ایک طاس گھڑیال نصب کیا۔( طاس: پانی یا شراب کا پیالہ، کوزہ، کٹورا) ۔  بابر نے اپنی خود نوشت ’تزک بابری‘ میں طاس گھڑیال کا قدرے تفصیلی ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ یہ پیتل کا  ایک بہت بڑا گھنٹہ تھا جس کی موٹائی دو انگل تھی۔ اس  کو  کسی اونچی جگہ لٹکاتے تھے  اور اس کے نیچے پانی سے بھری ایک چھوٹی ناند ہوتی تھی جسے اس نے ’’طاسِ پُر آب‘‘ کا نام دیا اور بتایا کہ کس طرح اس میں ایک کٹورا ڈال کر اس کے بھر جانے کے بعد گھڑیال بجایا جاتا تھا۔ بابر نے بھی وقت کے اعلان کا یہی طریقہ جاری رکھا لیکن یہ حکم بھی دیا کہ رات اور دن میں گھڑیوں کے بجانے کے بعد پہر کی علامت بھی بجا کرے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ کونسے پہر کی گھڑیاں بجی ہیں۔

قدیم ہندوستان میں  ایک دن اور ایک رات کی مدت کو (جو آج کل چوبیس گھنٹوں پر محیط ہے)  ساٹھ برابر کے حصوں میں بانٹا جاتا تھا  جنھیں گھڑی کہا جاتا تھا۔ اس طرح آج کے اعتبار سے ایک گھڑی چوبیس منٹ کی ہوتی تھی۔ ایک گھڑی کو مزید ساٹھ حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا جنھیں پل کہا جاتا تھا جو آج کے چوبیس سیکنڈ کے برابر ہوتا تھا۔ گھڑی اور پل کی یہ تقسیم یا دورانیہ  اس تصور سے بہت مختلف ہے جو آج   کل ہمارے ذہنوں میں ہے۔ہم  گھڑی اور پل کے تعلق سےان دونوں سے کہیں زیادہ مختصر مدت  مراد لیتے ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ گھڑی اور پل کو ناپا کس طرح جاتا تھا کیوں کہ اس زمانے میں آج کی طرح وقت  ناپنے کے لیے میکانیکی  گھنٹے اور گھڑیاں تو تھے نہیں۔ چنانچہ اس  زمانے میں گھڑی کو ناپنے کے لیےدھات کا ایک پیالہ یا کٹورہ استعمال کیا جاتا تھا جس کے پیندے میں سوراخ بنا دیا جاتا تھا۔ اس پیالے کو پانی سے بھرے ایک برتن میں ڈالا جاتا تھا  جس کے بعد پیندے میں بنے ہوئے سوراخ سے اس میں آہستہ آہستہ پانی بھرتا رہتا تھا  یہاں تک کہ اس میں اوپر تک پانی بھر جاتا اور وہ پانی میں ڈوب جاتا۔ پیالے کو پانی میں ڈالنے سے اس کے ڈوبنے تک کی مدت کو ایک گھڑی مانا جاتا تھا۔ دھات سے بنے اس پیالے  کی گہرائی بارہ اُنگل  کی ہوتی تھی اور اس میں بنے ہوئے سوراخ کا سائز اتنا رکھا جاتا تھا کہ وہ مطلوبہ وقت میں ہی پورا بھر جائے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ چوبیس منٹ کے وقفے کو تو گھڑی کہتے ہی تھے، پانی کے اس سوراخ دار پیالے کو بھی گھڑی کہتے تھے جسے وقت ناپنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

سترھویں صدی میں انگریزوں اور ولندیزیوں نے بھی ہندوستان میں اپنی تجارتی چوکیوں میں جنھیں فیکٹری کہا جاتا تھا، وقت ناپنے کے لیے پانی کی گھڑیوں کا استعمال جاری رکھا۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں  جب برطانوی حکومت کا برصغیر ہند پر تسلط قائم ہوگیا تو انھوں نے پانی کی گھڑی کی بجائے میکانیکی گھڑیوں کے استعمال کو بتدریج فروغ دیا۔ تاہم اس وقت بھی ہر علاقے کا اپنا ایک مقامی وقت ہوتا تھا اور پورے ملک میں وقت کا یکساں نظام نافذ نہیں تھا۔ پورے ملک میں وقت کا یکساں نظام 1905ء میں  نافذ کیا گیا اور اس کے لیے گرین وچ مین ٹائم کو بنیاد بنایا گیا یعنی گرین وچ مین ٹائم میں ساڑھے پانچ گھنٹے کا اضافہ کرکے ہندوستانی معیاری وقت طے کیا گیا جو آج بھی پورے ہندوستان میں یکساں طور پر اپنایا جاتا ہے۔

امجد اسلام امجد

اُس ایک پل میں کتنے ہی موسم چلے گئے

تم نے نگاہ پھیر کے دیکھا بس ایک پل

نامعلوم

گِردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی

احمد فرازؔ

تیرا ملنا بھی جدائی کی گھڑی ہو جیسے

ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے

میر تقی میؔر

کل اس گلی میں آٹھ پہر غش پڑے رہے

اب کیا کریں نہ صبر ہے دل کو نہ جی میں تاب

 تاہم محاوروں میں نہ سہی، شعر و شاعری میں پہر ، گھڑی اور پل کا ذکر آج  بھی رائج ہے اور دور جدید کے شاعر بھی قدیم شعراء کی طرح پہر کو اب بھی وقت کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کے چند نمونے ذیل میں دیکھے جاسکتے ہیں

Leave a comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اردو ادب، شاعری اور نثر – سب ایک جگہ
آپ کے ذوق کی دنیا، بس ایک کلک کی دوری پر

Get The Latest Updates

Subscribe to our newsletter to get our newest articles instantly!

Copyright 2025 . All rights reserved Huroof powered by Arkanteck.