Afsanay

Yay Malal-e-Ishq – یہ ملالِ عشق

Share
Share

”توں ادھر شہر میں جا کے مارے کو بھول تو نہیں جاوے گا بڑا آدمی بنکر مارا نام تہ یا دہووے گا۔” وہ آنکھوں میں تیرتی نمی کو دوپٹے کے پلو سے صاف کرتے بولی ۔
جمال اس کی گمبھیر سی آواز پر چونکا اور مسکراتے ہوئے بولنے لگا .۔”ارے نہیں بھولوں گا شبو تو فکر کاہے کو روتی ہے تارے اور اماں باوا کے واسطے تو میں پردیس جا رہا ہوں تاکہ اچھی نوکری کر کے دوچار پیسے کما سکوں۔ اب اتھروؤں کے ساتھ مجھے رخصت کرے گی اب چل رونا بند کر جھلی نہ ہووے تے …”اسکی جھیل سی آنکھوں سے جھلکتے موتی چنتے ہوئے بولا ۔
٭…٭…٭
اس کی حکم عدولی کرنا تو شبو نے سیکھا ہی نہ تھا ”جا جمائے آﷲ سائیں تجھے اپنے حفظ و امان میں رکھے” بوجھل سی مسکراہٹ کے ساتھ بمشکل دل پر پتھر رکھ کر وہ رخصت کرتے ہوئے بولی
٭…٭…٭
جمال تواس کے لیے متاع جان تھا ۔اس کے جانے کے بعد خود کو کمرے میںقید کر کے وہ دل کھول کر روتی تھی ۔اس کا رونا بنتا بھی تھا ۔بچپن سے لے کر اب تک اک پل بھی جمائے کے بنا نہ رہی تھی۔ وہی تو تھا ہر دکھ میں اس کا سانجھا پر اب اسے پورے پانچ سال جمال دین کی یادوں کے سہارے تنہا گزارنے تھے۔ یہ خیال ہی اس کے لیے وبال جان تھا ۔
پانچ سال کی تو تھی جب سے اپنا نام جمال دین کے نام کے ساتھ سنتی آرہی تھی۔ گواس کا اورجمال کا کوئی خاص جوڑ نہ تھا ۔وہ سانولی سلونی رنگت اور معمولی نین نقوش والی جاہل اور جمال پنڈ کا سب سے سوہنا منڈا دراز قد سرخ اور سفید رنگت کے ساتھ وہ مردانہ و وجاہت کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔
٭…٭…٭
8سا ل کی تو تھی جب اس کے ماں باپ گزرے تب سے وہ اپنی تایا تائی کے ساتھ رہ رہی تھی۔ جمال ان کا اکلوتا پتر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا منگیتر بھی تھا۔ یہ رشتہ شبنم کے اماں ابا کی حیاتی میں ہی طے پایا تھا ۔
اسے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا مگر تائے کے گھر کی مفلسی نے حوصلے پست کر دئے تھے۔ جیسے تیسے حالات سے نپٹتے تایا نے دونوںکو 10 جماعتیں پڑھا دیںاس کے بعد تائے نے یہ کہہ کرکے بڑی سہولت سے انھیں آگے پڑھانے سے انکار کر دیا، کہ وہ تعلیم کا فضول خرچ مزید برداشت نہیں کر سکتے ۔گھر میں بڑھتی ہوئی غربت کو دیکھ کر انھوں نے جمالے کو بھی اپنے ساتھ دیہاڑی پر لے جانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ وہ بھی چار پیسے کما کر گھر کا چولہا جلا سکے۔ اس نے تو چپ سادھ لی پر جمال نے تو آگے پڑھنے کی ضد ٹھان رکھی تھی-
٭…٭…٭
گھر میں لڑائی فساد کے باوجود جب وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ توشبو کو ہی اپنے دل کے سائیں کی خاطرقربانی دینی پڑی بجھتے ہوئے دل کے ساتھ پڑھائی کو خیرباد کہہ کے وہ دن بھر چودھریوں کے ہاں کام کرتی۔ اور رات گئے تک لوگوں کے کپڑے سیتی رہتی ۔بڑی کھینچ تان کر کے وہ جمالے کی فیس کے ساتھ گھر کا چولہا بھی جلائے ہوئے تھی-
٭…٭…٭
زندگی کی ا لجھنوں میں کھو کر وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا کہ جمال ہاتھ میں بارہویں کا رزلٹ تھامے اس کے سامنے کھڑا تھا ”شبو ارے شبو …دیکھ پورے صوبے میں میری پہلی پوزیشن آئی ہے اب توں دیکھ اپنے دن کیسے پھرتے ہیں اس کی گہری سیاہ چمکدار آنکھوں میںیوں خمار تھا گویا کوئی محاذ فتح کر کے لوٹا ہو وہ ایک لمحہ کے لیے اسکی آنکھوں میں کھو گئی ۔
٭…٭…٭
یہ سب تیرا احسان ہے شبو مجھ پر، مجھے سمجھ نہیں آتی میں تیرا شکریہ کیسے ادا کروں وہ ورافتگی سے اس کی نازک کلائی اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھامے ہوئے بولا ۔
”چل جھلے منگ ہو ں میں تیری اتنا تو فرض بنتا ہے نہ میرا تیرے لیے۔ شکر ادا کرنا ہے، تو میرے سوہنے رب کا کر جس نے تجھے اپنی مہربانیوں سے نوازا …احسان کرنے والی میں کون ہوتی ہوں احسان تو وہ کرتا ہے مجھ پر، تم پر ،ہم سب پر …اس کے احسانوں کے آگے بندے کی کیا وقعت ہے اور تو فکر نہ کر جب توں وڈا آدمی بن جاوے گا نہ تب میں سارا قرض سود سمیت واپس لوں گی تجھ سے وہ شرارت سے ہنستے ہوئے بولی ۔
وہ تو چاہتی تھی اس کا جمالہ اس کی آنکھوں کے سامنے رہ کر پڑھے پر جمال لاہور میں رہ کر ڈاکٹری پڑھنا چاہتا تھا اس کی خواہش کے آگے ایک بار پھر وہ سرجھکا گئی ۔
حکومت کی طرف سے مقرر کیے جانے والا وظیفہ اتنا ضرورتھا کہ وہ میڈیکل کالج کی فیس بھر پاتا۔بڑا شہر اور بڑھتی مہنگائی اور اصل مسئلہ تو دوسرے خرچوں کا تھا جو جمال کی راتوں کی نیند اڑائے ہوئے تھا۔ اسے بے چین دیکھ کر وہ کیسے چین سے بیٹھ سکتی تھی 5 مرلے کا پلاٹ اوراس کی ماں کا زیور ہی اس کی کل جائیداد تھا تائے سے کہہ کر اس نے اماں ابا کی آخری نشانی کو بھی بیچ ڈالا اور ساری رقم لا کر جمال کے ہاتھ پر دھر دی …
٭…٭…٭
”اور کتنے احسان کرے گی تو اس ناچیز پر ‘جمال کا سر شرم سے جھک گیا
”نہ جمالے ایسا نہ بول مارے دل نوں بڑی تکلیف ہوؤے ہے اگراتنی ہی فکر ہے نہتجھے احسانوں کی جب توں ڈاکٹر بن جاوے مینوں نوا زیور بنوا دیویں ،پر ایک بات یاد رکھیں میری دولت میری جائیداد اور میرا اصل زیور تو توں ہے جمالے تجھے تکلیف میں دیکھ کر یہ دولت مجھے کہاں سکھ بخش سکتی تھی اسنے بھیگے ہوئے لہجہ میں بالاآخر ہمت کرتے ہوئے اپنے دل کا راز کہہ ہی ڈالا ۔
او چپ کر جا کملیئے نہ رو ُہن …تیری کانچ سی آنکھوں میںابھرتے آنسو میرا سکون برباد کرتے ہیں۔
ارے اوہ دھی رانی کیوں رو رو کے جھلی ہوئی جاتی ہے مجھے دیکھ میں نے بھی تو اپنے کلیجے کا ٹکڑا خود سے جدا کیا ہے تیرے پاس تو پورا پنڈ ہے پر وہاں پردیس میں میرا لا ل تو تنہا ہے اﷲ جانے کہاں رہتا ہو گا کہاں سے کھاتا ہو گا شہر کی ہوا اسے راس بھی آئے گی یا نہیں تائی کی بوڑھی کمزورآنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ۔
تائی کی اپنائیت پا کر وہ پھوٹ پھوٹ کررو پڑی ”اماں میں پورے پنڈ کا کیا کروں میری توپوری دنیا جمالے میںہی بستی ہے ۔”
٭…٭…٭
آخر پانچ سال پورے ہو ہی گئے وہ منہ پر قفل لگائے اپنی ذمہ داریاں نبھا نبھا کر ڈھ سی گئی تھی تو اس کے بے رنگ چہرے پر دھنک رنگ بکھر جاتے اور جاتے وقت وہ اس کی سیاہ آنکھوں کا سمندر پانی سے لبریز کر جایا کرتا تھا وہ جمال کے سامنے اشک بہا کراس کا راستہ کھوٹا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔پر نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ باغی آنسواس کے ضبط کو دغا دے کر گالوں پر چھلک جاتے اس کے آنسوؤں سے تو اب جمال کو چڑ ہونے لگی تھی ۔
”دیکھ شبو ہر ویلے جھلی نہ بنا کر کچھ تے عقل ”نوں ہاتھ مار۔” وہ درشت لہجے میں کہتا ہوا ہر بار اس کے جذبات مجروح کر کے چلاتا جاتا۔
٭…٭…٭
آج اس کے لیے عروج کا دن تھا اس کا متاع حیات جو آج ڈاکٹر بن کر ہمیشہ کے لیے لوٹ رہا تھا۔ شبنم کے پیر تو زمین پر ٹکائے نہ ٹک رہے تھے ۔
آخر کار انتظار کی طویل گھڑیاں ختم ہو گئیں۔ ڈوبتا ہوا سورج اسے ایک روشن شام کی نوید دے کر رخصت ہو گیا شام ڈھلے گھر کے سونے آنگن میں جمالے نے اپنے قدم رکھے ۔
ڈاکٹربن کر تو جمالے کا رکھ رکھاؤ ہی بدل گیا تھا۔ وہ کھڑکی کی آڑ میں سر سے لے کر پاؤں تک بغور اس کو دیکھنے لگی جمال کی نگاہیں اپنی اور اٹھتا دیکھ کر اس نے فوراً اپنی لامبی پلکیں جھکالیں پنڈ کا سب سے سوہنا منڈا تو وہ پہلے سے ہی تھا اب تو تعلیم نے اس کا حسن مزید نکھار دیا تھا۔ شبنم کی نگاہیں بار بار پھسل کر اس کے اجلے روشن چہرے کا طواف کر رہی تھیں ۔جو سب کچھ بھلائے اس کی ہستی سے بے خبر تایا اور تائی کے ساتھ گپیں ہانکنے میں مصروف تھا ۔
٭…٭…٭
”میں تیری منگ ہوں جمالے میں اسلم سے بیاہ کیسے رچالوں جمالے تائی توں تو سمجھا اسے میرے دل نے تو سدا اس کی پوجا کی ہے اپنے سوہنے رب سے اسی کا ساتھ مانگا ہے میں اپنا آپ اسے بھلا کر کسی اور کوکیسے سونپ دوں۔ ”وہ روتے ہوئے التجائی لہجے میں بولی …دیکھ شبو زیادہ جذباتی مت بن ایک بات تو توں بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ میرا تیرا کوئی میل نہیں ہے نہ تعلیم سے نہ شکل و صورت سے تیرے ساتھ زمانے میں چلنے سے پہلے مجھے سو بار سوچنا پڑے گا ویسے بھی مجھے ادھرشہر میں ایک ڈاکٹرنی پسند ہے اور میں اسی سے شادی کروں گا ۔توں ٹھہری گوار اور میں شہری ڈاکٹر اماں سمجھا دے اسے فالتو میں اپنا دماغ نہ کھپائے ۔”
بے یقینی ہی بے یقینی تھی جو اس کی دھواں ہوتی آنکھوں میں امڈ رہی تھی لفظوں کے تیر چلائے جا رہے تھے اسے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھا وہ تو عرصے سے خود کوبھوکا رکھ کر اپنی ایک ایک پائی جمال پر لٹاتی چلی آئی تھی کہ بدلے میں وہ اسے اپنی محبتوں اورچاہتوں سے مالا مال کر دے گا ۔
کوئی اس قدر احسان فراموش کیسے ہو سکتا ہے وہ بمشکل دیوار کا سہارا لے کر کھڑی تھی۔
”کیا کچھ نہیں … اس نے جلدی سے لب بھینچ لیے وہ چیخنا چاہتی تھی انصاف کی بھیک مانگنا چاہتی تھی لوگوں کو چلا چلا کر اس کی بے مروتی کے قصے سنانا چاہتی تھی پر مزید بے وقعت ہونا گوارا نہ تھا۔
٭…٭…٭
اگلی سہ پہر بڑی مشکل سے وہ خود پر ضبط کرتی ہوئی جمال کے پاس آکر بولی ۔
”جا جمالے کر لے توں بیاہ محبت کے ہاتھوں اندھی ہو کے میں ہی اپنا آپ بھلا ئے بیٹھی تھی۔ مجھے لگا تھا محبت اوقات نہیں دیکھتی محبت کی نظروں میں تو اس کی محبت ہی سب سے برتر ہوتی ہے سب سے حسین مجھے میری کوتاہی پر معاف کر دے جمالے ”…وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی ۔
توں شہر جانا چاہتا ہے جا …اماں ابا کو بھی ساتھ لے جانا چاہتا ہے لے جا پر اس گھر کا سکون مجھ سے نہ چھین میں اس گھر میں تیری یاد کو محسوس کر کے پوری زندگی تنہا بِتالوں گی ۔”
٭…٭…٭
”جیسی تیری مرضی شبو پر میں تیرا قرض اگلے ہی ہفتے چکتا کر دوں گا ابھی توںرہ اس گھر میں میری بیوی کے آنے سے پہلے میں خود اپنے ہاتھوں سے تیری رخصتی کر دوں گا۔ تیری اور آزمائش نہیں بنوں گا۔ بے دردی سے کہتے ہوئے وہ دروازہ پار کرگیا ۔
وہ آنسوصاف کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی اپنی ڈائری کھول کر چند سطریں تحریر کیں ۔
”کاش میرے ماں باپ بھی زندہ ہوتے تو آج میںبھری دنیا میں تنہا نہ ہوتی۔” اس نے لاچاری سے سوچا زخموں پر مرہم لگانا تو در کنارتایا تائی نے یوں رخ پلٹا کہ وہ اس کے قریب آکر بھی نہ بیٹھے اسے محسوس ہوا ابھی کسی بھی پل دل پھٹ جائے گا دھڑکنیں رک جائیں گی۔ صرف محسوس نہیں ہوا سچ میں اس کی دھڑکنیں رک چکی تھیں۔ روٹی کا پیڑا پسینہ ہوتے ہاتھوں سے پھسل کر دور جا گرا …درد کی شدت سے دل پر ہاتھ رکھتی وہ وہیں ڈھے گئی ۔تائی نے کچھ ہوش میں لانے کی کوشش کی پر وہ وہاں ہوتی تو سنتی نا وہ تو کب کی ان سے روٹھ کر کہیں اور جا بسی تھی ۔
٭…٭…٭
جمال دین بڑے ھارٹ سرجن بنے پھرتے ہو نا تم …اس لڑکی کے دل تک تو نہ پہنچ پائے جو بچپن سے تمھارے ساتھ رہ رہی تھی کیسے چارہ گر ہو تم تم جو درد کا علاج جاننے کے باوجود مجھے خود موت کے منہ میں دھکیل کر چلے گئے ۔
”محبت میں اپنی خواہشیں نہیں دیکھی جاتیں اور دیکھ میں نے خود کو بھلا کرتیری خواہش کا احترام کیا ہے تیری آخری خواہش بھی جلد پوری ہو جائے گی تو فکر نہ کر جمالے تو ہی اپنے ہاتھوں مجھے اس گھر سے رخصت کرے گا۔ ”
سچ ہی تو لکھ گئی تھی وہ اسی نے تو اپنے ہاتھوں سے اسے قبر میں اتار کر گھر سے تو کیا اس دنیا سے بھی رخصت کر دیا ۔
جمالے تو بڑے مان سے کہتا ہے نہ میرا قرض چکا دے گا، تو بتا میرے کون کونسے قرض چکائے گا؟ میرے تو تجھ پر اتنے قرض باقی ہیںکہ انھیں چکاتے چکاتے تیری ہستی فنا ہو جائے گی۔ میں لاکھ گوار سہی پر اتنی کم ظرف نہ تھی کہ تیری خاطر دی گئی اپنی ایک ایک قربانی زمانے بھر کو گنواتی پھرتی۔
جمال کی آنکھوںمیںبے اختیار آنسو آگئے اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ ڈائری کا اگلا صفحہ پلٹا …
تو سنو صاحب !
یہ میرا دعوی ہے تم سے
اب کی بار جو تم لوٹو گے
میں تمھیں نظر بھی نہ آؤں گی
لبوں پہ کوئی شکوہ ہوگا
نہ آنکھیں اشک بہائیں گی
میں خاموش ہو جاؤں گی
میرا ہر لفظ تمہیں ستائے گا
٭…٭…٭
وہ ٹھیک تو کہہ گئی تھی اسے اونچی اڑان اڑ کے بھی کیا ملا ۔ڈاکٹر عالیہ کو کھاتے پیتے گھرانے کا کیپٹن عالیان اس قدر بہتر لگا تھا کہ اسی وقت وہ اسے چھوڑ کر لندن جا بسی تھی ۔جب وہ اس کے لیے شبنم جیسی پر خلوص لڑکی کی چاہت کو دھتکار رہا تھا ۔
سارے ملال اس کے حصے میں آئے تھے ۔احسان فراموشی کا ملال، شبنم کے قتل کا ملال، محبت کی ناقدری کرنے کا ملال ،پر اب پچھتاوے کا کیا فائدہ نہ اب وقت پیچھے جا سکتا ہے نہ شبو واپس آسکتی تھی وہ اداس ہوتا بے بس ہو کر بیٹھ گیا باقی کے آنسو بھی اس کے حصے میں آئے تھے ۔
٭٭…٭٭

Leave a comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اردو ادب، شاعری اور نثر – سب ایک جگہ
آپ کے ذوق کی دنیا، بس ایک کلک کی دوری پر

Get The Latest Updates

Subscribe to our newsletter to get our newest articles instantly!

Copyright 2025 . All rights reserved Huroof powered by Arkanteck.